رمضان المبارک روحانیت کا موسم بہار

ہم جس عالم میں رہتے ہیں یہ عالم دنیا ہے جو ایک مادی عالم ہے یہ مادی عالم فانی ہے، جو ایک دن فنا ہونے والا ہے۔ اس مادی عالم کا ربط و ارتباط عالم آخرت سے جوڑا گیا ہے، جو دائمی و ابدی ہے۔ اس مادی عالم میں انسان کو جو وجود بخشا گیا ہے وہ بھی مادی و فانی ہے، لیکن اس وجود فانی میں جو روح رکھی گئی ہے وہ ابدی ہے جس کو کبھی فنا نہیں۔ انسان چوں کہ جسم و روح سے مرکب ہے اس لئے کچھ تقاضے مادی جسم کے ہیں تو کچھ تقاضے روح کے بھی ہیں۔ جو بندے اس مادی عالم میں مادی جسم کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ روح کے تقاضوں کی تکمیل میں سنجیدہ رہتے ہیں، وہ اس ابدی اور دائمی عالم (آخرت) میں سرخ رو و کامیاب ہوتے ہیں۔ دنیا کے خیر کے ساتھ آخرت کا خیر سمیٹتے ہیں اور عالم آخرت میں حیات ابدی و سعادت سرمدی کے مستحق بنتے ہیں’’والآخرۃ خیر و أبقی(الاعلی:۱۷) چنانچہ اس عالم فانی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مادی وجود کی حیات و بقا کے لئے ایک نظام بنایا ہے اور عالم آخرت کی ابدی و سرمدی زندگی کا ذوق رکھنے والے بندوں کے لئے روحانی زندگی کا نظام ترتیب دیا ہے۔ اس مادی عالم کے نظام میں مادی جسم کی زندگی کے لئے ہوا اور پانی کا انتظام کیا۔ رزق و روزی کے اسباب مہیا کئے، دن رات اور ماہ وسال کا ایک مکمل نظام قائم فرمایا۔ اس نظام میں دن اور رات گردش کرتے ہیں، سورج طلوع ہو کر تاریکی کو دور کرتا اور سارے عالم کو روشن کرتا ہے۔ چاند چمکتا ہے، نور و روشنی، دلکش چاندنی بکھیرتا ہے۔ اس کی دلآویزی آنکھوں کو نور و سرور بخشتی ہے اور اس مادی عالم میں اپنی ٹھنڈی روشنی پہنچا کر سارے ماحول کو راحت و سکینت سے ہمکنار کرتا ہے۔ ستارے جھلملاتے ہیں۔ تاریک راتوں میں چلنے والوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ اپنی چمک دمک سے نگاہوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ یہ سب قدرتِ خداوندی کے عظیم شاہکار ہیں۔ پھر ان تمام کا اس مادی عالم میں اور بھی بہت اہم کردار ہے۔ عالم کو روشن و منور کرنے اور اس عالم میں پھیلنے والی گندگی و تعفن کو دور کرنے میں جہاں سورج کی روشنی ممدو معاون ہوتی ہے، وہیں یہ تمام قدرت کے عظیم شاہکار پھلوں کے پکنے اور ان میں شیرینی اور مٹھاس پیدا کرنے میں پھولوں کے چٹکنے اور مہکنے اور عالم کو گل و گلزار بنانے میں اپنا بڑا مؤثر رول رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ عقل انسانی و فہم امکانی سے بالا اور بھی بہت سے مادی فوائد ان سے وابستہ رکھے گئے ہیں، جن میں اور مخلوقات کے علاوہ انسانوں کی حیات سے متعلق منافع پوشیدہ ہیں، جن کا احاطہ کرنے سے قصور عقل کی بناء انسان عاجز و قاصر ہے۔ اس عالم میں سردی، گرمی اور برسات جیسے موسموں کے ذریعہ بہار و خزاں کے لمحات اس مادی عالم کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ خزاں کا موسم عالم کی شادابی و شگفتگی کو ختم کردیتا ہے۔ پت جھڑ کا موسم درختوں کو بے لباس بنا دیتا ہے اور وہ سوکھ کر ایک بے جان لاشہ کی طرح زمین پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ بہار کا موسم حیات و زندگی، رونق و تازگی کی خوش خبری کا پیام لاتا ہے۔ پھر اس عالم کو سبزہ زار میں تبدیل کردیتا ہے۔ ہر طرف حیات و زندگی، شگفتگی و شادابی جھلکنے لگتی ہے۔ عالم کا ذرہ ذرہ سبزہ و گل کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔

مادی عالم ہی کی طرح روحانی عالم میں بھی خزاں و بہار کے موسم آتے ہیں۔ سورج روشن ہوتا ہے، چاند کی چاندنی چٹکتی ہے، جانفزا روشنی بکھیرتی ہے، ستارے جگمگاتے ہیں، نور و روشنی کا سامان کرتے ہیں۔ اس روحانی عالم کے چاند و سورج تمثیل کی زبان میں گویا اللہ کے محبوب ترین چنندہ و منتخب بندے انبیاء کرام و مرسلین عظام علیہم الصلوۃ والسلام کہے جاسکتے ہیں، جن کی اس دنیا میں بعثت اور ان پر آسمانی ہدایات کے نزول سے کفر و شرک، ضلالت و گمراہی، طغیان و عصیان کی گھٹاٹوپ تاریکی دور ہوتی ہے۔ رشد و ہدایت، نیکی و پارسائی، خیر و بھلائی کی روشنی پھیلتی ہے۔ دلوں کی دنیا اور روح کے عالم میں اس مقدس گروہ کی آمد صبح نو کی نوید لاتی ہے۔ صحابہ و تابعین، تبع تابعین، علماء و صلحاء، اتقیاء و اصفیاء، محدثین و مفسرین اور فقہاء و مجتہدین کو ستاروں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، جو انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام کی نورانی ہدایات و نبوی ارشادات کے روشن چراغ اور اس کی ضیاء بخشیوں کو نہ صرف گل ہونے نہیں دیتے، بلکہ اللہ سبحانہ کی محبت، خلقت خدا کی ہدایت اور اس کی نجات کی فکر و تڑپ میں اپنے آپ کو گھلا کر اور شب و روز گمراہ انسانیت کے انجام بد پر آنسو بہار کر اس درد و غم کی آگ میں خود کو جلا کر نبوی رشد و ہدایت کی منور شمع کو حیات تازہ بخشتے رہتے ہیں۔
شب و روز اور ماہ وسال کے اس مادی نظام میں کچھ رات دن اور مہینے جو زمان کہلاتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کو ایک طرح سے روحانی نظام کی حیات و زندگی میں نور و تابندگی بخشنے کے لئے منتخب فرما لیا ہے۔ ان ہی میں ایک عظیم مہینہ ماہ رمضان المبارک ہے، جس کی آمد قلب و روح کے عالم میں ایک روحانی انقلاب برپاکرتی ہے اورروحانیت کے موسم بہار کی آمد کا مژدہ جانفزا سناتی ہے۔
روزہ کی فرضیت کا مقصود’’تقوی‘‘ہے،روحانیت کے مدارج میں ارتقاء کیلئے روزہ اکسیرکی حیثیت رکھتاہے،روحانیت کے اس موسم بہارسے کمال درجہ کا استفادہ اسی وقت ممکن ہے جب روزہ کا مقصودحاصل ہو،روحانی راحت ورحمت،قلبی طمانیت وسکینت کارازاسی میں مضمرہے ۔تقوی زندگی کے کسی ایک شعبہ میں سدھارکا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے شعبے تقوی کے رنگ میں رنگ جائیں،روزہ سے ایسا تقوی حاصل ہو کہ ہرآن’’اتقوا اللّٰہ‘‘کی آوازقلب کی سماعتوں سے ٹکراتی رہے ۔بحالت روزہ حکم رب کی تعمیل میں حلال اشیاء کا ترک جب عزیزازجان بن گیا ہو توپھرہونا یہی چاہئے کہ اللہ سبحانہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بازآجانا کچھ مشکل نہ رہے ،رمضان المبارک کے ایک مہینہ کی پابندی ایک مسلمان کواحکام شرع کے مطابق پابندزندگی گزارنے کا خوگربناسکتی ہے،اس کے لئے صرف ہمت وارادہ کی ضرورت ہے اورروزہ رکھ کراپنے نفس کواس کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔روزہ عبادت ہے اورعبادات کی طرح اس عبادت کی پرخلوص ادائیگی آب حیات کا کام کرتی ہے جس سے روحانی تشنگی بجھتی ہے اورایسی سیرابی نصیب ہوتی ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی عزم وحوصلہ جوان رہتاہے،رضائے الہی اس قدرعزیزہوجاتی ہے کہ نفس کے تقاضوں کوقربان کرنا آسان ہوجاتاہے بلکہ وقت پڑنے پر جان ومال قربان کرنا پڑے تو یہ بھی کچھ مشکل نہیں رہتا۔رمضان کے موسم بہارسے حقیقی استفادہ نفس کی آلائشات کوپاک کردیتاہے،نفس کے تقاضے اپنی موت مرجاتے ہیں،شبنم کے صاف وشفاف اورپاکیزہ قطروں کی طرح باطن پاکیزہ ہوجاتاہے،حدیث پاک میں واردہے’’ہرشیٔ کی کوئی نہ کوئی زکوۃ ہے یعنی جس کے نکالنے سے وہ شیٔ پاک ہوجاتی ہے اورجسم کی زکوۃ روزہ رکھنا ہے‘‘ (ابن ماجہ:۱۷۳۵) روزہ رکھنے سے جب باطن پاکیزہ ہوجائے تویہی باطن کی پاکیزگی کفریات وشرکیات،فسق وفجورسے آلودہ ہونے سے بچاتی ہے۔نافرمانی وسرکشی کے داغ دھبے دامن ایمان کوداغدارنہیںکرپاتے،اسلئے روحانیت کے موسم بہار(رمضان المبارک) کے اثرات کوقلب وروح پرطاری رکھتے ہوئے حقیقی معنی میں روزہ دارانہ مزاج پیداکرتے ہوئے رمضان المبارک کی قدر کی جائے ان شاء اللہ اس سے انسان کی پوری زندگی بہارآفریں ثابت ہوسکتی ہے اوربے حد وحساب اخروی منافع زادآخرت بن سکتے ہیں۔ روحانیت کا یہ موسم بہارناقدری کی وجہ کسی کے حق میں خزاں آلود بھی ہوسکتا ہے پھر تواس کی بدبختی وشقاوت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا چنانچہ سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کے اس ارشادپاک سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ’’جوکوئی روزہ تورکھے یعنی حسب احکام شرع صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہے لیکن باطل گفت وشنیداورباطل اعمال واشغال سے اجتناب نہ کرے تواللہ سبحانہ کواس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پروانہیں‘‘(بخاری:۱۹۰۳)
الغرض رمضان المبارک کا روحانی اعتبارسے یہ موسم بہارانسانی زندگی میں اس وقت روح پرورثابت ہوسکتا ہے جبکہ ان احادیث پاک کی روح کو پیش نظررکھ کر روزہ رکھا جائے۔