رمضان المبارک خیرکی طرف سبقت کرنے کا مہینہ

انسان دوطرح کے ہوتے ہیں ایک محسن دوسرے ظالم ،محسن سے مراد وہ لوگ ہیں جوراہ خیرپر چلتے ہوئے کارہائے خیر اختیارکرکے اپنی ذات کو بھی نفع پہنچاتے ہیں اورخلق خداکو بھی،اپنی ذات کو نفع پہنچانے سے مرادا پنے اقوال وافعال کو درست کرنااوراخلاق وعادات کوعمدہ بنانا ہے ،خلق خداکو نفع پہنچانے سے مراد انکے ساتھ احسان وسلوک اورعمدہ برتاؤ کرنا ہے ، اللہ سبحانہ کاارشادہے’’اللہ سبحانہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں ‘‘۔(النحل: ۹۹)دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی خاص طورپر تاکید ہے ارشاد باری ہے’ ’ واحسن کما احسن اللہ الیک ‘‘ اللہ سبحانہ نے جیسے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر۔(القصص:۷۷)اللہ سبحانہ نے انسانوں کو مختلف صلاحیتوں اورنعمتوں سے نوازاہے اسکا حقیقی شکرانہ یہی ہے کہ خلق خداکواس کی ذات سے راحت ملے ،مال ودولت بھی ایک عظیم انعام ہے انسان اگراس سے خودراحت وآرام اٹھائے اورزیادہ سے زیادہ اپنے خاندان والوں کو فائدہ پہنچائے کافی نہیں ،بلکہ وہ غریب جومحتاج وتنگدست ہیں ان پر بھی نظررکھی جائے اوراپنے عشرت کدوں سے جھانک کر انکو بھی دیکھا جائے جوآسمان کے زیرسایہ فرش خاک پرآرام کرتے ہیںیاراحت وآرام سے عاری معمولی ٹھکانوں میں زندگی کے دن بتاتے ہیں انسانیت کا کمال یہ ہے کہ انسان کے شب وروزاپنی اوراپنوں اورغیروں کی فکرمیں گزریں اوراپنی ذات کو سرچشمہ خیربناکرخودکو اوردوسروں کو نفع پہنچائیں،زندگی اگرکچھ کام کی چاہیے تو زندگی کا یہی کچھ حاصل ہے ۔

ظالم وہ لوگ ہیں جو اللہ سبحانہ کی مرضیات کو پامال کرکے اپنے آپ پر ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں اورکچھ وہ بھی ہوتے ہیں جواپنے آپ پر ظلم کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی اپنے ظلم کا نشانہ بنا تے ہیں،ماہ رمضان المبارک کی آمدہر دوطرح کے انسانوں کیلئے رحمتوں کی سوغات لاتی ہے رمضان کی مبارک ساعات کی اگرقدرکی جائے تومحسنین کے مقام احسان میں اوراضافہ ہوسکتاہے اوروہ جوظالم ہیں وہ بھی اپنی زندگی پر نظرثانی کرکے ایمان وتقوی کی راہ اپنا کر ظالموں کی فہرست سے نکل کرمحسنین کی فہرست میں اپنا نام لکھواسکتے ہیں ۔
حدیث پاک میں وارد ہے ’’ایک ندادینے والا یہ ندادیتاہے اے خیرکے چاہنے والو۔اے نیکی وبھلائی کوپسند کرنے والو۔آگے بڑھو یعنی ان مبارک لمحات کو غنیمت جانواورجس قدر نیکی اورخیرکے کام کرسکتے ہو کرلو‘‘۔ اوراے گناہوں اورجرائم کے پسند کرنے والو۔اب قدم روک لو۔آگے مت بڑھو: یاباغی الخیراقبل ویاباغی الشراقصر(الترمذی)یہ ندااگرچہ کانوں سے تو نہیں سنی جاتی لیکن خیرکے اثرات کھلی آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں ،الغرض اس کا مقصودومدعا یہ ہے کہ اب یہ زرین موقع ہے گناہوں سے توبہ کرنے ،پچھلی نافرمانی کی زندگی پر ندامت کے آنسوبہانے اوراپنی اصلاح کا ارادہ کرکے نیکی اورصالحیت کواختیار کرنے کا‘‘ ۔
رمضان المبارک کی آمدنعمتوں کی بہارلئے ہوئے آتی ہے اورتمام مہینہ رحمتوں کی پھواربرستی رہتی ہے ،خیرکی طرف خودبخود قد م اٹھنے لگتے ہیں خیروبھلائی کے جذبات واحساسات تازہ ہوجاتے ہیں،ایمانی کیفیات کی تازگی قلوب میں محسوس ہوتی ہے۔ نیکی وسعادت سے بھر پوراعمال کی رغبت وچاہت دلوں میں مچلنے لگتی ہے ،خیروسعادت سے محروم افرادبھی رمضان پاک کے روحانی اثرات سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتے،توبہ واستغفارکی جب توفیق ملتی ہے تو نافرمانی چھوڑکر طاعت وفرماںبرداری کی راہ اختیارکرتے ہیں، گناہوں سے نیکیوں کی طرف ہجرت کرلیتے ہیں حدیث پاک میں وارد ہے ’’اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑنے کا سچا ارادہ کرکے اسکی مرضیات کی طرف قدم بڑھا نا بھی ہجر ت ہے ‘‘۔

اس ہجرت سے زندگی میں ایک نیا تغیرآتاہے اورمردہ احساسات زندہ ہوجاتے ہیں تو وہ بھی رمضان المبارک کی رحمتوں کی بارش میں نہاتے ہیں۔اللہ سبحانہ کی بے پایاں رحمتیں امت مرحومہ پر ہیں،ماہ رمضان المبارک بھی انہیں رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے، اسکی ایک ایک ساعت ایک ایک لمحہ بڑاقیمتی اوررحمتوں سے معمورہے،رمضان کی ان مبارک ساعات میں اللہ سبحانہ اپنے بندوں کو نوازنا چاہتے ہیں اور اپنا قرب عطاکرکے اپنا محبوب بنانا چاہتے ہیں۔ارشادباری ہے’’(میری طرف سے )آپ فرمادیجئے اے میرے بندو!جنھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے نا امید اورمایوس نہ ہوجاؤ یقینا اللہ سبحانہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتاہے واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والاہے ‘‘۔(الزمر:۵۳) اس آیت پاک میں اللہ سبحانہ کی بے کراں رحمتوں کا اوراسکی بخشش ومغفرت کی وسعتوں کا بیان ہے ،یہاں اسراف سے یہ معنی مراد ہیں کہ حد درجہ گناہ کرنے والوںاوربکثرت گناہوں کے دلدل میں پھنسے رہنے والو ں کو اللہ سبحانہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، وہ تو ہر آن آبرکرم برسارہا ہے ،بڑے بڑے خطاء کاروں کی خطائیں وہ معاف فرمانے کی قد رت رکھتا ہے۔یہ وہ درعالی وقاراوربارگاہ ذوالجلال ہے جہاں سچے دل سے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول  ہوتی ہے ، لیکن اسکے یہ معنی ہر گزنہیں ہیں کہ اسکی بخشش ورحمت کی امید پر گناہ کئے جائیں ،حدوداللہ کوپا مال کیا جائے اسکی نا راضگی مول کراسکے غیض وغضب کو دعو ت دی جائے ،اس آیت میں ’’یا عبادی ‘‘فرماکراللہ سبحانہ نے بندوں سے اپنے پیار ومحبت کا اظہارکیا ہے۔حدیث پاک کی روسے سچے دل سے توبہ کرنے والو ںکے گناہ خواہ جتنے بھی ہوں یہاں تک کہ وہ سمندرکے جھاگ کے برابرہوںتب بھی اللہ سبحانہ انکو معاف فرما دیں گے ،اورانکو ایسی معافی ملے گی کہ گویا انھوں نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔  التائب من الذ نب کمن لا ذنب لہ  ۔
اللہ سبحانہ کی رحمتیں اوربندوں پر اسکی بے پناہ شفقتیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ خیرکی طرف سبقت کی جائے اللہ سبحانہ نے جسکی ہدایت قرآن پاک میں ایک سے زائد جگہ’  فاستبقوا الخیرات ‘فرماکردی ہے (البقرہ:۱۴۸/التوبہ :۴۸) اسلام کا پیغام اوراسکی ہدایات جوانسانی زندگی کے سارے شعبوں کو محیط ہیں وہ سب کے سب ساری انسانیت کیلئے عظیم سرمایہ رحمت ہیں۔ ایمانیات ،اعتقادات ،معاملات،معاشرت اسلامی تہذیب وتمدن اوراعلی اسلامی اخلاق اپنا کر سارے انسان رحمت کا بے مثال پیکربن سکتے ہیں ،یہ ماہ مبارک گویا ماہ انقلاب ہے اس مبارک انقلاب کیلئے خیرکی طرف مسابقت میں ہرگزتاخیرنہ کی جائے بلکہ مسارعت یعنی ایمان واعمال صالحہ اختیار کرنے میں جس قد سرعت کی سکتی ہے کی جائے اسلئے کہ یہ حصول مغفرت کے اسباب ہیں ۔
رمضان کا مبارک مہینہ بخشش ومغفرت کا روح پرور پیغام لئے آتا ہے اپنی نفسوں پر ظلم کرکے گناہوںاورنافرمانیوںکی امواج ہلاکت میں پھنسے افراد بھی جب سچے دل سے تو بہ واستغفارکرکے اللہ سبحانہ کے درنیازپر سرجھکاتے ہیں،ایمان لاکر جوعہداللہ سے باندھا تھا اسکوپوراکرنے کا ارادہ کرتے ہوئے رمضان المبارک کی ساعتوں کا سچے دل سے استقبال کرتے ہیں توپھر وہ بحفاظت تمام رحمتوں کے ساحل مراد تک پہنچ سکتے ہیں ،بے چینی واضطراب کے منجدھارسے اپنی زندگی کی کشتی بچاکر ایمان ویقین کے پرفضاء ماحول میں سانس لے سکتے ہیں ۔دلوں کی اجڑی ہوئی دنیا ایمان ویقین کے نورسے آباد ہوسکتی ہے ۔
رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے توساراعالم روحانی حسن وجمال میں نہا جاتاہے ، مادی ضروریات جیسے جسمانی تقاضوں کو پوراکرنے کیلئے  رزق وروزی ضروری ہے ویسے ہی قلب وروح کی زندگی وتازگی کیلئے روحانی رزق بھی ضروری ہے ،رمضان پاک کے مبارک مہینہ میں ہر دوطرح کی روزی وافرمقدارمیں مہیا کی جاتی ہے ،سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا پاک ارشادہے’’یہ وہ مبارک مہینہ ہے جسمیں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتاہے ‘‘ اس سے مادی رزق بھی مرادلیا جاسکتاہے اورروحانی بھی ۔مادی رزق میں اضافہ کا ہرکوئی مشاہدہ کرتاہے لیکن روحانی رزق میں اضافہ انہیں کے حصہ میں آتا ہے جوخیرکی طرف قد م آگے بڑھانے اورنیکیوں میں سبقت کرنے کا جذبہ اپنے دلوں میں بیدارکرکے ماہ رمضان المبارک کا استقبال کرتے ہیں اللہ سبحانہ ہم سب کو اسکی تو فیق بخشے،اوررمضان المبارک کا حقیقی معنی میں استقبال کرنے والوں کے زمرہ میں ہمیں شامل فرمائے ۔آمین