رفیق زندگی کے ساتھ رفاقت کی نزاکت و اہمیت – قسط اول

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ

ایک انسان کا رشتہ دوسرے انسان کے ساتھ تعلق و محبت احترام و تعظیم کا ہے، یہ انسانیت کی تعلیم ہے ، اس کو سارے مذاہب نے تسلیم کیا ہے اسلام کی وجہ یہ رشتہ اور پائیدار و مستحکم ہو جاتا ہے اسلام نے انسانیت کے جن اعلی تقاضوں کی تعلیم دی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی اسلام کی وجہ انسانیت کو جو پیار ملتا ہے ، وہ مذہب ،زبان،و علاقہ و خاندان وغیرہ کی دیواروں کو درمیان سے ہٹا دیتا ہے ، خلق خدا سے محبت ایمان کا حصہ ہے اسی لئے حضرت محبوب الہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔خالق کی محبت کا راستہ مخلوق کی محبت سے ہو کر گزرتا ہے ،حدیث پاک میں ارشاد ہے ’’ مخلوق ایک طرح سے اللہ کا کنبہ و قبیلہ ہے اللہ کو وہ بندے محبوب ہے جو اس کی عیال کے ساتھ عمدہ سلوک کریں ،انسانیت کے ساتھ ایک انسان کا رشتہ درد کا رشتہ ہے ، وہ رشتہ کسی اور انسان کو مصیبت میں دیکھنے کا تحمل نہیں کر سکتا ،دوسرے انسان کی خو شی اس کو خو شی سے سرشار کر تی ہے ، مادی دکھ درد کے ساتھ روحانی درد بھی شامل رہتا ہے، جس طرح کسی انسان کو ابتلاء و مصیبت میں دیکھ کر تکلیف ہو تی ہے ،اسی طرح ایک اس انسان کو جو مو من ہے دوسرے غیر مومن بھائی کا راہ حق سے دور رہنا کرب و بے چینی میں مبتلا کر دیتا ہے ، جب تک اپنے اس بھائی کو راہ ہدایت تک نہ لے آئے چین نہیں پڑ تا۔

انسانی رشتہ کے بعد جو رشتہ اہم ہے وہ اسلامی و ایمانی رشتہ ہے، اس رشتے کے تقاضے اور بڑھ جاتے ہیں،یہا ں انسانی تقاضوں کے ساتھ ایمانی و اسلامی تقاضوں کی تکمیل بھی لا زم ہو جا تی ہے ، اس ایمانی رشتہ سے کئی ایک ایمانی بھائی ایمان و الفت کی ایک ڈور میں بند ھ جاتے ہیں ، ایمانی محبت کا سر چشمہ کتاب و سنت ہے جس کی عمدہ تعلیمات ایک مومن کو دوسرے مو من کے ساتھ محبت کی ایک ایسی لڑی میں پرودیتے ہیں جو کبھی ٹوٹنے نہیں پاتی، یہ رشتہ ایمان والوں کو ایک جسم و جا ن بنا دیتا ہے حدیث پاک میں وارد ہے ’’ایمان والوں کو تو تم ایسے دیکھوں گے کہ انکے باہم ایک دوسرے پر رحمت و مہر بانی کر نے محبت و تعا طف، ہمدردی و غمخواری میںان کی مثال ایک جسم انسانی کے مانند ہے ، جب اسکے کسی ایک عضو کو تکلیف ہو تی ہے تو جسم کے دیگر سارے اعضاء بھی اس کے درد میں شریک حال ہو جاتے ہیں ، اور اس ایک عضو کی تکلیف سارے اعضاء کی تکلیف بن جا تی ہے ، پھر اس درد سے آنے والی حرارت اور اسکی وجہ جو بے خوابی ہو سکتی ہے اس میں سارے اعضاء شریک حال ہو جاتے ہیں‘‘ (مفہوم حدیث) ایمانی رشتہ وہ تعلق قائم کر تا ہے کہ دوسرے کا درداس کا درد بن جا تا ہے ، صاحب جوامع الکلم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے کلام بلاغت سے پیش کر دہ یہ وہ بلیغ تمثیل ہے جس سے ایمانی رشتہ کی اہمیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے ، کمالِ ایمان کا رشتہ اسی درد سے جڑا ہو ا ہے ، ایمانی رشتہ کی یہ محبت خیر کا سر چشمہ ہے ، حدیث پاک میں وارد ہے ’’ مومن تو الفت و محبت کا پیکر ہو تا ہے ،اس انسان میں کوئی بھلائی اور خیر نہیں جو دوسروں سے الفت و محبت نہ کرے اور دوسرے اس سے الفت و محبت نہ کریں‘‘ ،یہ بھی ارشاد ہے ’’ جس کسی بندے نے اللہ کے کسی بندے سے محبت کی تو اس نے اپنے رب کی تکریم و تو قیر کی‘‘ اللہ کی عبادت کر کے بندگی کا حق ادا کیا جا تا ہے ، انسانوں سے او ر خاص طور پر ایمان والے بندوں سے محبت کرنا بندوں کی عظمت ہی کا نہیں بلکہ اپنے رب کی عظمت کا اعتراف کرنا ہے ، یہ اعتراف بھی عبادت ہے۔

انسانی و ایمانی رشتوں کے بعد نسبی و صہری (سسرالی) رشتوں کا درجہ ہے ، ان رشتوں میں انسانی درد کا رشتہ اور ایمانی محبت و نسبت کا رشتہ پہلے ہی سے قائم رہتا ہے ، لیکن نسبی وصہری رشتوں کا قیام اس رشتہ کی اہمیت کو اور بڑھا دیتا ہے ، نسبی و صہری رشتوں میں سارے رشتے قابل احترام ہو تے ہیں ہر ایک کی اسلام نے درجہ بندی کی ہے اور ان کے نہ صرف حقوق بیان فرمائے ہیں بلکہ ان حقوق کی حفاظت اور ان کی عمدہ انداز میں ادائیگی کی تلقین کی ہے ، ان سارے رشتوں میں ان کے مادی حقوق ادا کر نے کے ساتھ ان کے رو حا نی حقوق یعنی دل کی گہرایوں سے ان کی تعظیم و احترام، خوش دلی کے ساتھ سارے آداب و اخلاق کی رعایت اخلاق اسلامی کا حصہ ہے ، خاندان کی تشکیل میں مرد و عورت دونو ںکا اہم کردار ہے ،مرد کے بغیر عورت، عورت کے بغیر مرد کسی خاندان کی تشکیل نہیں کر سکتے، یہ اللہ کا بنا یا ہو ا فطری نظام ہے ، اس کی پاسداری سے رحمت کا ماحو ل بنتا ہے ، اس سے انحراف زحمتوں کا پیش خیمہ ثابت ہو تا ہے ، رحمت او ر زحمت میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے ، دل سے تحقیر و نفرت کا نقطہ نکال کر زحمت کو رحمت میں تبدیل کر لیا جا سکتا ہے ، نفرت و حقارت کا نقطہ دل میں پیوست رہے تو وہی نقطہ رحمت کے پہلے حرف پر لگ کر زحمت بن جا تا ہے ، اسی نکتہ کو فراموش کر دینے کا نتیجہ یہ نکلتاہے ، کہ خاندانی زندگیاں نفرتوں کے زہر سے بھر جاتی ہیں ۔

اللہ تعالی نے مرد و عورت دونوں کو یکساں جذبات و احساسات بخشے ہیں، اور عورت میں یہ احساسات نسبتا زیادہ ہو تے ہے، مرد کی خواہش یہ ہو تی ہے کہ عورت اس کا احترام کرے اور اس سے ٹوٹ کر محبت کرے ، دل دکھانے والے کسی برتاو اور دل دکھانے والی ہر بات سے پرہیز کرے ، ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ عورت کی خواہش ہو تی ہے کہ شوہر کی طرف سے اسی طرح کا بلکہ اس سے اچھا سلو ک و برتاو ملے ، جس طرح مرد کے ماں باپ ، بھائی،بہن وغیرہ خاندانی رشتہ کی وجہ محبوب ہو تے ہیں اور مرد خواہشمند رہتا ہے ، کہ عورت (بیوی) ان رشتوں کا پاس و لحاظ رکھے ، اور اپنے ماں باپ اور اپنے بھائی بہن سمجھ کر ان کے ساتھ عمدہ سلوک کرے ، ظاہر ہے عورت یعنی بیوی کے بھی یہی جذبات ہو تے ہیں، کہ شوہر بھی اس (بیوی)کے ماں باپ اور بھائی ،بہن کو اپنے ماں باپ اور اپنے بھائی ، بہن ہی کی طرح خیال کرے ،

مرد جسطرح اپنے والدین و رشتہ داروں کے ساتھ بیوی کی بے اعتنائی برداشت نہیں کر سکتا ٹھیک اسی طرح عورت بھی اپنے والدین و اقرباء کے بارے میں مرد کی طرف سے ہو نے والے کسی بھی ناروا رویہ یا ناروا طرزگفتگو یا انکی تحقیر و تذلیل کا بوجھا اٹھانے کا تحمل نہیں کر سکتی ،یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اس کو اگر فراموش کر دیا جائے توراحت و سکون کاتصور نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک فطری تقاضہ بھی ہے، ہر دو طرف سے اس کی تکمیل تسکین خاطر کا ذریعہ بنتی ہے ، ہر دو طرف سے اس فطری تقاضے کو نظر انداز کیا جائے یا کوئی ایک دوسرے کو نظر انداز کرے تو یہاں سے اختلاف کا راستہ کھلتا ہے اور زندگی کا سکون رخصت ہو جاتا ہے ۔

عام طور پر ہمارے سماج میں لڑکے تو اس بات کے خواشمند ہو تے ہیں کہ بیوی کی طرف سے ان کو اور انکے افراد خاندان کو پوری طرح احترام ملے ،لیکن بیوی اور بیوی کے افراد خاندان کو اس احترام کا نہ صرف حقدار نہیں سمجھا جا تا ، بلکہ ان کی توہین و مذمت اور عیب چینی کرنے کے ساتھ ان کی تحقیر روا رکھی جاتی ہے ، اس طرح خلاف فطرت عمل کی بنا زندگی میں محبت کے پھول کھلنے کے بجائے زہر کے کانٹے ان کو گھیر لیتے ہیں ،اور زندگی بجائے پیارو محبت کا گلشن بننے کے نفرتوںاور کدورتوں کی خار دار جھاڑیوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔