رشوت ستانی : انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

ہندوستان میں صادق اور امین سیاستدانوں کی جگہ چور اور ڈاکوؤں نے لے لی ہے تو معاشرہ کانظام بگڑجاتا ہے ۔ ہندوستانی معاشرہ علاقائی تہذیب سے مربوط ہے ۔علاقائی سیاستدانوں کی خرابیوں سے صرف ایک ریاست کا سرکاری نظام ہی تباہ نہیں ہوتا بلکہ ا س سے سارے نظم و نسق پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ریاستی و قومی سطح پر سیاستدانوں و حکمرانوں کا معیار ابتر ہوتا جارہا ہے ۔ ٹاملناڈو کی چیف منسٹر جیہ للیتا کے خلاف عیرمحسوب اثاثہ جات کیس میں کرناٹک ہائیکورٹ کے جج کا یہ ریمارک غور طلب ہے کہ جیہ للیتا کی درخواست ضمانت پر غور نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ان کا جرم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تعریف میں آتا ہے ۔ جج جسٹس اے ای چندرشیکھر نے کہاکہ جیہ للیتا کی درخواست ضمانت کو منظوری دینے کی کوئی بنیاد نظر نہیں آتی کیوں کہ ان کے خلاف رشوت ستانی کے جو الزامات ہیں وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں اور اس سے معاشی عدم توازن پیدا ہوتا ہے ۔ مشہور وکیل رام جیٹھ ملانی کی پیروی کے باوجود کرناٹک ہائیکورٹ جج کا فیصلہ قانون کی حکمرانی کی زندہ مثال ہے ۔

رام جیٹھ ملانی نے اس 18 سال پرانے کیس میں جیہ للیتا کو دی گئی چار سال جیل کی سزا کو غیرمناسب قرار دیتے ہوئے چارہ اسکام میں ضمانت حاصل کرنے والے بہار کے لیڈر لالو پرساد کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل پیش کی مگر جج نے کسی بھی دلیل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں مسترد کردیا ہے تو یہ جج کے حوصلہ اور قانون کی عمل آوری کی بہترین کوشش ہے ۔ بشرطیکہ اس بنچ سے نکل کر کیس اور کسی بنچ تک پہونچنے پر کیس کی نوعیت کو تبدیل نہ کیا جائے ۔ عموماً کوئی کیس کسی بنچ میں حل نہ ہو تو اسے اعلیٰ بنچ یا سپریم کورٹ لے جایا جاتا ہے جہاں مجرمین کو قانون کی گرفت سے نرمی حاصل ہوتی ہے ۔ اگر سپریم کورٹ میں جیہ للیتا کی درخواست منظور ہوتی ہے تو پھر لالو پرساد یادو کوبھی موقع ملے گا اور قانون پر سے عوام کا اعتماد کمزور پڑھ جائے گا ۔ غیرمحسوب اثاثہ جات کیس میں عدلیہ نے جس طرح کا موقف اختیار کیا ہے وہ دیگر سیاستدانوں اور اس طرح کے کیسوں میں ملوث افراد کے خلاف بھی قابل اطلاق ہوتا ہے۔کرناٹک ہائیکورٹ کے جج نے صرف رشوت سانی کے الزامات کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے تو پھر اس ملک میں انجام دینے کیلئے متعدد فرضی انکاؤنٹرس کیسوں کو کس نکتہ نظر سے دیکھا جائے گا ۔ فرضی انکاؤنٹرس کرانے والے سیاستدان آزادانہ طورپر گھوم پھر رہے ہیں۔ اس طرح رشوت ستانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے کئی دیگر قائدین کو بھی اس فیصلہ سے تشویش لاحق ہوگی ۔ یوں تو یوپی میں اہم قائدین پر رشوت کے سنگین الزامات ہیں۔ سپریم کورٹ کے مشہور وکیل رام جیٹھ ملانی غیرمحسوب اثاثہ جات کیس کی پیروی کرتے ہوئے ایک مجرم کو بچانے کی کوشش کررہے ہوں تو یہ پیشہ وکالت کا ایک حصہ ہے جہاں تک جج کے خیال کا تعلق ہے رشوت کا بازار گرم کرنے والوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایسے سیاستدانوں کو رہا کرانے رام جیٹھ ملانی کی کوشش اور بحث و حجت ایسی ہے جیسے کہ ایک بیٹا اپنے والدین کا قتل کرکے یہ درخواست کرے کہ اسے رہا کردیا جانا چاہئے کیوں کہ وہ ایک یتیم ہے ۔ اس کیس میں پیشہ وکالت کو بھی انسانی حقوق کے تحفظ پر دھیان دینا چاہئے ۔ سیاستدانوں کو سبق سکھانا وقت کا تقاضہ سمجھا جارہا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ سنگین سے سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والا مجرم ایک دن عدالت سے باعزت بری کردیا جاتا ہے ۔قانون کو سخت کردیا جائے تو آگے چل کر اس ملک کے ارکان پارلیمنٹ اور حکمراں ایسے افراد ہوں گے جو سچ بولتے ہیں ، امانت میں خیانت نہیں کرتے ، اچھے کردار کے مالک اور رشوت ستانی کی عارضوں سے پاک ہوں گے ۔ ملک کے بہترین مفاد میں غوروفکر کرنے والے لیڈر وجود میں آجائیں تو تمام خرابیاں ازخود ختم ہوں گی لیکن ہمارے ملک میں سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کی اکثریت تو اس معیار پر پورا ہی نہیں اترتی ۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس سخت قوانین نہیں ہیں لیکن یہاں پر مسئلہ ہے کہ سخت قوانین یا معمولی قوانین پر دیانتداری سے عمل آوری نہیں کی جاسکتی ۔ اس سے سیاسی قیادت میں فراڈ اور دغابازی کا مزاج فروغ پاتا ہے ۔ کسی بھی لیڈر کو ان دنوں پاک دامن قرار دینا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کو پورا کرنے کی کوئی ہمت نہیں کرسکے گا ۔ جس دن پاک دامن لیڈر پیدا ہونے لگیں گے اس ملک اور عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔