محترم محمد رضی الدین معظم
رشوت انسانی سوسائٹی کا ایسا بدترین اور مہلک مرض ہے، جو سماج کی رگوں میں زہریلے خون کی طرح سرایت کرکے پورے نظام انسانیت کو کھوکھلا اور تباہ کردیتا ہے۔ رشوت ظالم کی مدد کرتی ہے اور مظلوم کو جبر و ظلم برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ رشوت ہی کے ذریعہ گواہ، وکیل اور حاکم حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرتے ہیں۔ رشوت قومی امانت میں سب سے بڑی خیانت ہے۔ رشوت کے معنی ڈول کی رسی ہے، جب کہ اصطلاحی معنی میں ’’رشوت وہ مال ناحق ہے، جس کو لینے والے کی طلب پر اس کے حوالے کیا جائے‘‘ یعنی رشوت لینے والے کی طلب پر جو مال بطور رشوت اسے دیا جائے۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ رشوت ہر وہ اجرت اور مزدوری ہے، جس کا حرام ہونا شرعی اصولوں سے ثابت ہو، یعنی ہر ایسا مال رشوت ہے، جو کسی مصیبت کے دفاع یا مفاد کی تکمیل کے عوض دیا جائے۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ رشوت وہ ہے، جو حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لئے دیا جائے، یعنی ثابت شدہ شرعی حق کو باطل ثابت کرنے یا شرعاً جو چیز باطل ہو، اس کو حق ثابت کرنے کے لئے جو کچھ خرچ کیا جائے، وہ رشوت کہلاتا ہے۔
حلال واضح ہے، حرام واضح ہے، حق باقی رہنے والا ہے، جب کہ باطل مٹ جانے والا ہے۔ رشوت حرام ہے۔ حاکم، قاضی، ملازم یا عہدہ دار کو کسی قسم کی مالی حرص کے بغیر اپنا فرض منصبی انجام دینا چاہئے۔ جس طرح رشوت لینے والے کا فعل حرام ہے، رشوت دینے اور واسطہ بننے کا فعل بھی سراسر حرام ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچاکر اس کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنالیاکرو، حالانکہ تم جانتے ہو‘‘ (سورۃ البقرہ) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ آپﷺ نے رشوت کو سود کی ایک قسم بتایا ہے اور رشوت کھانے والے کو آتش دوزخ کی وعید سنائی ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ حرام کے ارتکاب پر ہی وعید سنائی جاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ رشوت حرام ہے۔ رشوت کے ذریعہ آدمی غیر کا مال ہڑپنے کا راستہ پاتا ہے۔ جس طرح رشوت لینے والے کو گناہ ہوگا، اسی طرح رشوت دینے والا اور بیچ کا ایجنٹ بھی اس جرم کا مرتکب سمجھا جائے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو سیدھی راہ دکھائے اور رشوت جیسی بُری بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)