نسیمہ تراب الحسن
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام کو خداوند تعالی نے رحمت بناکر بھیجا، لیکن سب سے آخر میں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلوہ گری ہوئی تو آپ کو سر تا پا رحمت کا پیکر بناکر بھیجا اور آپ کو رحمۃ للعالمین بنایا۔ آپ نے انسانی جانوں کو تحفظ عطا فرمایا، آپ نے مالوں کو تحفظ دیا، انسانی عزت کو محفوظ کیا، اس طرح ساری کائنات آپ کے دائرہ تحفظ میں آگئی۔ جو اس دائرہ میں ہے، اللہ کی رحمت سے مستفید ہوگیا۔ جمادات، نباتات، حیوانات اور جن و انس تمام سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہ رحمت سے فیض پاتے ہیں۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ایسے حالات میں ہوا، جب کہ پوری انسانیت گمراہی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کہیں شرک اور بت پرستی کی لعنتوں کا بازار گرم تھا، کہیں دہشت گردی کا بول بالا تھا، بدترین ظلم و ستم ہر طرف انسانوں کو زندہ درگور بنائے ہوئے تھے۔ ان مصیبتوں کا حل کسی کے پاس نہیں تھا، کسی کو کسی سے ہمدردی نہیں تھی، نفس پرستی اور ذاتی مفاد نے اخلاقی قدروں کو مٹا دیا تھا۔ نت نئے ٹکراؤ ہوتے، بغاوتیں ہوتیں، مذہبی فرقے قتل و خون کرتے، ان ہنگاموں میں عوام پستے رہتے، کسی میں احتجاج کی ہمت نہ تھی۔ ضمیر سو چکے تھے، ان کی روح چیختی تھی، مگر دستگیری کرنے والا کوئی نہ تھا۔ مذہب کو مذہبی رہنماؤں نے متاع کا کاروبار بنالیا تھا۔ ایسے انتشار کے زمانے میں پیغمبر انسانیت کے قلب کو اللہ تعالی نے اپنے علم سے منور کیا اور سب سے بڑی سچائی پوری آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوگئی۔ الہامی رہنمائی میں ایمان کی روش پر چلنے کے لئے آپﷺ نے اولاد آدم کے لئے شمع دین روشن کردی، اس کے لئے کسی لشکر، فوج اور تیغ و تلوار کی ضرورت نہ تھی۔ قرآن مجید کی روشنی میں مکارم اخلاق کا سبق دینا تھا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اس کا نمونہ تھی۔
امیر المؤمنین حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’یارسول اللہ! آپ کا اسوۂ حسنہ اور طریقہ زندگی کیا ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’معرفت الہی میرا سرمایہ حیات ہے، عقل سلیم میرے دین کی اصل ہے، محبت الہی میری زندگی کی اساس اور بنیاد ہے۔ شوق میری سواری ہے، اللہ تعالی کا ذکر میرا انیس اور میرا ساتھی، اعتماد میرا خزانہ ہے، غم الہی میرا ساتھی ہے، صبر میری چادر ہے، رضائے الہی میرا مال غنیمت ہے، عجز و انکساری میرا فخر ہے، زہد میرا پیشہ ہے، یقین قلبی میری قوت و طاقت ہے، صدق میرا حامی و سفارشی ہے، اطاعت الہی میری کفایت کرنے والی ہے، جذبہ جہاد میرا خلق و کردار ہے، میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘۔ ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’میرے دل کا پھل اللہ تعالی کے ذکر میں ہے، میرا غم میری امت کی وجہ سے ہے، میرا شوق میرے رب سے ملاقات کی جانب ہے‘‘۔
واضح رہے کہ خداوند عالم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ اور اسوۂ حسنہ کو دنیا و آخرت کی کامیابی کی اصل بنیاد قرار دیا ہے۔ آپﷺ اصولوں کے پابند تھے، کسی محفل میں اگر کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی تو برداشت کرتے، اس کا اظہار نہ کرتے، کیونکہ آپﷺ کسی کو ذلیل کرنا پسند نہ فرماتے اور نہ ہی کسی کے جذبات کو مجروح کرنا چاہتے تھے۔ عدل و انصاف کے معاملے میں رشتے ناطوں یا اقتدار کو درمیان میں نہ آنے دیتے اور شریعت کے مطابق فیصلہ فرماتے۔ امانت دار ایسے کہ قریش نے متفقہ طورپر آپﷺ کو ’’امین‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ عفو و درگزر بے مثال۔ اپنے ذاتی معاملات میں کبھی بدلہ نہ لیا، لیکن احکام الہی کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ عجز و انکساری کی حد یہ تھی کہ اپنے لئے تعظیمی الفاظ پسند نہ فرماتے۔ کسی محفل میں جاتے تو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ سخی ایسے کہ کسی حاجت مند کو مایوس نہ لوٹاتے۔ آپﷺ نے تاکید فرمائی تھی کہ اگر کوئی مسلمان مقروض مر جائے تو مجھے اطلاع دو، میں اس کا قرض ادا کردوں گا اور اگر کوئی ترکہ چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے، مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں۔ آپﷺ غریبوں اور مفلسوں سے اس طرح ملتے کہ دنیاوی دولت سے محرومی کا انھیں احساس نہ ہوتا۔ رحمدلی کا یہ عالم تھا کہ جن لوگوں نے آپﷺ کو ہر طرح سے ستایا اور اذیت پہنچائی، ان کو بھی معاف فرمادیا۔ آپﷺ کے دشمنوں نے آپ کو قتل کرنے کی بارہا کوشش کی، لیکن ایسے دشمنوں کو بھی آپ نے معاف فرمادیا۔ آپ کے رفیقوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ ختم کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام کو مریض سے نفرت نہیں، بلکہ مرض سے نفرت ہے۔ وہ مریض کی حیات چاہتا ہے اور اسلام مرض ختم کرنے کے لئے آیا ہے۔ کافر کو ختم کرنا نہیں، بلکہ کفر کو ختم کرنا اسلام کی مسیحائی ہے‘‘۔ یہ ہے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم۔
ہم مسلمانوں کو اپنے آپ پر ناز ہے کہ ہم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہیں، لیکن ہمارے کردار میں آپﷺ کے اسوہ حسنہ کی صفات کی کتنی جھلک ہے؟ اس پر غور کرنا چاہئے۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ بغیر کسی وجہ کے دوسروں کے خلاف ہو جاتے ہیں، ذرا سا اقتدار مل جائے تو شان بے نیازی کا اظہار کرتے ہیں۔ حق تلفی، ناانصافی، اپنے مفاد کی کوششیں، جھوٹ، کپٹ، کیا کچھ نہیں ہے ہمارے مزاج میں۔ البتہ یہ احساس ضرور ہے کہ نماز، روزہ، زکوۃ اور فریضہ حج ادا کرلیں تو روز محشر شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم ہماری شفاعت فرمائیں گے۔ ہم کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جائیں تو آپﷺ کی تعلیم، آپ کی ہدایت اور آپ کی سیرت طیبہ کے چند موتی اپنے دامن میں لے کر جائیں، تاکہ شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم بھی خوش ہو جائیں کہ ’’ہاں یہ میرا امتی ہے‘‘۔ نظام سابع میر عثمان علی خاں نے کیا خوب کہا ہے:
عثماںؔ نجات کے لئے اتنا رہے خیال
اعمال نیک بھی رہیں فرد گناہ میں
ان کا یہ بھی کہنا ہے:
کمالِ دین و ایماں کی اگر خواہش ہے اے عثماںؔ
خدائے پاک سے حب نبی کی التجا کیجے