ہر ابتداء سے پہلے ، ہر انتہا کے بعد
ذات نبی ﷺ بلند ہے ، ذاتِ خدا کے بعد
رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ِ مبارک پوری انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا کرم اور احسان ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبی ﷺ تک اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی و رہبری کے لئے بھیجا تھا مگر یہ انسان مختلف خانوں میں بٹ کر اپنا بڑا خسارہ کرتا آرہا ہے۔ فی زمانہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان پر چلنے والے کامل ایمان کے ساتھ پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں اور جن انسانوں نے تعلیمات رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو فراموش یا نظرانداز کیا دنیا و آخرت میں اللہ کی رحمتوں سے محروم رہا۔ ہندوستان سے لے کر سارے عالم میں انسانوں کو مختلف خانوں میں بانٹنے والی طاقتیں خاص کر اسلام دشمن عناصر نے انسانوں کو سانحات سے دوچار کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان دنوں عالم اسلام کو ناکام بنانے کی جن سازشوں کے تحت کام ہورہے ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ اس طرح ہندوستان میں بھی نریندر مودی حکومت کے مرکز پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہندوتوا طاقتوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ فرقہ پرستوں کی شرانگیزی میں اضافہ ہوگیا۔ افسوس ہے کہ آر ایس ایس سمیت دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کا ہدف صرف مسلمان ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا گیا ہے کہ اب ان کے مذہب کو بھی نشانہ بناکر گھر واپسی مہم کو پورے ملک میں زور و شدت سے چلایا جارہا ہے۔ مذہب تبدیل کرنے کا شوشہ چھوڑ کر ہندوتوا لیڈروں نے سیاست چمکانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ آج کے دن مسلمانوں نے جشن عید میلادالنبی ﷺ کا جوش و خروش سے انعقاد عمل میں لاکر نبی کے امن و خوشی کے پیغام کو دور تک پھیلانے کا محسن انداز میں مظاہرہ کیا ہے تو اس کے ساتھ مسلمانوں کے کئی گروپس کو جو مختلف نظریات کے تحت منقسم ہیں یہ پیام بھی ملتا ہے کہ اگر مسلمان اپنے مسلکی اور فروعی مسائل میں یوں ہی اُلجھتے رہیں گے تو ان کو مزید کمزور کرنے کے لئے پھوٹ در پھوٹ کی سازشوں کو شدت سے بروئے کار لایا جائے گا۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں جشن میلادالنبی ﷺ کے موقع پر جلسے و اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ مقررین کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر سختی سے عمل آوری کے لئے تلقین کرتے ہوئے سنا جاتا ہے۔ ان کے برعکس 12 ربیع الاول کو ایک عقیدت و عشق رسول ﷺ کے ساتھ منانے کی مخالفت کرنے والوں کی چند جماعتی کوششوں کے باوجود عاشقان رسول ﷺ اس دن کو رحمت اللعالمین، خاتم المرسلین کی ولادت مبارک کا عظیم موقع مان کر درود و سلام کی پاکیزہ محفلیں سجاتے ہیں۔ نعت و منقبت رسول کی مجالس آراستہ کرتے ہیں جبکہ ہمارے درمیان ایسے گروہ بھی موجود ہیں جو اسلام دشمن یا گستاخانہ حرکتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج عالم اسلام کو دشمنان اسلام عدم استحکام کا شکار بنارہے ہیں۔ مسلمانوں کو فرقوں اور گروہوں میں بانٹ کر تماشہ دیکھنے والوں کے لئے وہ عام مسلمان نشانہ بن رہے ہیں۔ ہر موقع پر مسلم دانشوروں اور مفکرین اسلام اُمت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتے ہیں لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت باسعادت پر خوشیاں منانے کے ساتھ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں تو دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ عالم اسلام کو استعماریت کی طاقت سے خوفزدہ ہونے کے بجائے فضائے بدر پیدا کرتے ہوئے متحد ہوکر شیطانی قوتوں کے مقابل صف آرا ہوجائیں تو دنیا کی ناپاک طاقتیں ان کے سامنے ٹک نہیں سکیں گی۔ ہندوستان میں بھی ہندوتوا طاقتوں کو ان کی سازشوں میں ناکام بنانے کے لئے اُمت مسلمہ وحدت و اُخوت کا ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں ایسے سیاستداں بھی طاقتور ہوچکے ہیں جو غریب مسلم علاقوں میں اپنی اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہراساں و خوف زدہ کررہے ہیں۔ آگرہ، علیگڑھ، کیرالا، آندھرا، تلنگانہ، کرناٹک اور دیگر حصوں میں غریب مسلم علاقوں میں مسلم خاندانوں کو ہندو بنانے کے لئے فی مسلمان 5 لاکھ روپئے خرچ کرنے کے منصوبہ پر عمل کیا جارہا ہے۔ ان سب مذموم حرکتوں کے پیچھے متعدد اکثریتی ہندو ووٹ کا حصول ہے اور ہندو اکثریتی ووٹوں سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد آئندہ پانچ سال تک کسی روک ٹوک کے بغیر ہی مسلم دشمنی کا ننگا مظاہرہ کیا جائے گا۔ اُمت مسلمہ کے پاس اس کا جواب تیار کرنے کی فرصت نہیں ہے تو پھر ہر روز سانحات اس کا مقدر بنتے جائیں گے۔ بدقسمتی سے اُمت مسلمہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم تک جو ہدایات پہونچائی ہیں اس کا پوری طرح عمل پیرا نہیں ہیں۔ شدید کوتاہیوں کا شکار ہوکر باہمی اختلافات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔فرقے، مسلک، رنگ و نسل کے امتیازات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف انگشت نمائی کرتے ہیں۔ ہمارے نبی ﷺ کا تعلق کسی فرقے اور مسلک سے نہیں رہا وہ صرف مسلمان تھے، مومن یکسو تھے۔ آج ان کی تعلیمات اور ان کے اُصولوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو آراستہ کرکے عمل کریں تو دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناکر انسانیت کو فلاح و نجات کی راہ دکھاسکتے ہیں۔ اس وقت جبر و ناانصافی، ظلم و زیادتی سے ستائی ہوئی انسانیت کے ناجی سے مسیحا کی منتظر ہے۔ مسلمانوں کو اس مسیحائی کا کام انجام دینا ہے۔ شیطانی قوتوں کے مقابل صف آرا ہوجانا وقت کا تقاضہ ہے۔ آج کے مبارک دن اُمت مسلمہ کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ پر سختی سے عمل کریں گے۔
حصول اراضی آرڈیننس
صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے شعبہ انشورنس میں بیرونی راست سرمایہ کاری کے فیصد میں اضافہ کے لئے مودی حکومت کی جانب سے عجلت میں لائے گئے آرڈیننس پر فوری دستخط کرنے کے بعد حکومت کے ایک اور آرڈیننس لانے پر سوال اُٹھایا ہے۔ اراضی حصول قانون کے بجائے آرڈیننس لانے مودی حکومت کی جلد بازی پر شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ حکومت کسانوں کے حقوق اور مفادات پر ڈاکہ ڈالنے کی نیت سے آرڈیننس منظور کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران جن بلوں کو اپوزیشن کی مخالفت کے باعث منظور نہیں کروایا جاسکا انھیں آرڈیننس کے ذریعہ قانون کی شکل دینے کی کوشش مشتبہ دکھائی دیتی ہے۔ صدرجمہوریہ کے اختیارات پر مودی حکومت کا ہرگز اختیار نہیں ہے۔ پرنب مکرجی نے اراضی حصول اصلاحات کے لئے آرڈیننس کی منظوری سے قبل حکومت سے وضاحت طلب کرکے اپنے دستوری فرائض کو روبہ عمل لایا ہے۔ جبکہ انھوں نے گزشتہ ہفتہ جاری کردہ انشورنس پر آرڈیننس کے لئے وضاحت طلب نہیں کی تھی مگر اراضی حصول قانون راست ملک کے کسانوں کے مستقبل کو لاحق خطرات سے متعلق ہے تو دستوری عہدہ کی حامل شخصیت کو پارلیمنٹ پہنچانے کا کام لینا ضروری ہے۔ حکومت نے اراضی حصول بل کے ذریعہ ڈیفنس، قومی سلامتی اور دیہی انفراسٹرکچر اور کم لاگتی امکنہ اور اراضی کی خریداری پر تحدیدات جیسے پانچ زمروں کے پراجکٹس پر سے پابندیوں کو ہٹالینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد فیصلے کسانوں کے مفادات پر ضرب متصور ہورہے ہیں۔ وزیر دیہی ترقی چودھری بریندر سنگھ بھی بظاہر اس آرڈیننس سے ناراض ہیں اس لئے وہ صدرجمہوریہ کو پیش کئے جانے والے مسودہ کے ہمراہ جانے والی مہم میں شامل نہیں تھے۔ زمینات پر قبضہ کرنے والے بڑے بیوپاریوں کے دباؤ میں آکر اگر مودی حکومت جلد بازی میں اصلاحات کے نام پر آرڈیننس لائے گی تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ حکومت کی یہ جانبدارانہ حرکت ہے کہ وہ آرڈیننس کے ذریعہ ایک قانون تو عوام پر زبردستی مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اس بل سے مستقبل قریب میں حکومت کے مالیاتی مقاصد پورے نہیں ہوں گے اس لئے صدرجمہوریہ وضاحت چاہتے ہیں کہ حکومت کو صاف گوئی سے کام لینا ہوگا۔ جمہوریت میں پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہوتی ہے جبکہ مودی حکومت پارلیمانی تہذیب پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔