رجب طیب اردغان

ترکی میں رجب طیب اردغان کی کامیابی کو عالم اسلام کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے ۔ ترکی کا اسلام سے دیرینہ اور اہم رابطہ ہے ۔ اتاترک نے ایسا نظام بنایا تھا کہ آج تک اس نظام پر کوئی آنچ آنے نہیں پائی ۔ رجب طیب اردغان کی صدارت میں یہ ملک اسلام کی سربلندی کے ساتھ عالم اسلام کی قوت عظمت اور شان وقار کے لیے کام کرے گا ۔ گذشتہ چند سال قبل تک بھی ترکی کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا دیکھا گیا تھا ۔ لیکن جب سے اردغان نے ترکی کا اقتدار سنبھالا گذشتہ 15 سال سے ترکی یوروپ خط میں طاقتور ہونے کے ساتھ عالمی سطح پر اپنی افادیت میں اضافہ کرلیا ہے ۔ رجب طیب اردغان کی پارٹی اے کے پی ( انصاف و ترقی پارٹی ) نے 15 سال قبل ترکی کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تھا ۔ جب سے ترکی کو ترقی کی راہ پر لایا گیا معیشت کو مستحکم بنانے روزگار پیدا کرنے میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ترکی کا مقام طاقتور معیشتوں میں شمار ہورہا ہے ۔ میگا انفرااسٹرکچر پراجکٹس کی تکمیل نے صدر رجب طیب اردغان کے قول و فعل کو درست ثابت کردیا ۔ یوروپی یونین میں شمولیت کے بغیر ہی ترکی کی معیشت آج سارے یوروپ پر غلبہ حاصل کررہی ہے ۔ ترکی کے عوام کے لیے ایک بہترین جمہوریت لانے اور ان کی ترقی کو یقینی بنانے میں کامیاب اردغان کو ان کے حامیوں کی اکثریت نے ہی دوبارہ اقتدار سونپا ہے ۔

ترکی کے نئے دستور کے تحت اب اردغان کو بڑی نئی طاقت بھی حاصل ہوئی ہے ۔ اس طاقت اور اختیارات کے ذریعہ وہ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر تقررات کا خود فیصلہ کریں گے اور عدلیہ کے امور میں بھی مداخلت کا صدر کو اختیار حاصل ہے جہاں تک رجب طیب اردغان کے ان بیجا اختیارات کے حصول اور حکمرانی و انصاف رسانی کا سوال ہے یہ تنقیدیں تو ہوتی رہیں گی کہ اردغان نے اپنے پاس بیجا اختیارات رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کے توازن کو بگاڑ دیا ہے ۔ جمہوریت کی مناسب کارکردگی کے لیے ایک متوازن طاقت کا ہونا لازمی ہے ۔ اپوزیشن کے بغیر حکمران کے یکطرفہ اختیارات سے انصاف کی اصل روح کو نقصان پہونچتا ہے ۔ مگر ترکی کا سچ یہ ہے کہ یہاں اس نوعیت کی اتھاریٹی کی ضرورت تھی جو ملک کی معیشت کو اپنے بل بوتے اور کامل اختیارات کے ذریعہ بہتر بنا سکے اور کردش باغیوں کو ناکام کرسکے ۔ رجب طیب اردغان نے یہ سب کر کے دکھایا ہے ۔ 1994 سے لے کر آج تک ترکی کی بہتر طریقہ سے خدمت کی ہے ۔ فوجی بغاوت کو انہوں نے ایک حکمت عملی اور تدبیر کے ساتھ ناکام بنایا ۔ مگر ترکی میں صحافت کی آزادی کے مسئلہ پر ہونے والی تنقیدیں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے والے صدر رجب طیب اردغان کی توجہ کی طالب ہیں وہ اس ملک کو ایک جدید فلاحی اور اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں ان کی کارکردگی اور صلاحیتیں دیگر عرب و مسلم اقوام کے لیے مشعل راہ ہیں ۔ کم وقت میں انہوں نے اپنے ملک کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضہ کو صفر پر لادیا ۔ نہ صرف آئی ایم ایف کا 23.5 بلین ڈالر کا قرض انہوں نے ختم کردیا بلکہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو بھی قرض دینے کی پیشکش کی تھی ۔ رجب طیب اردغان کی کامیابی کے بعد مشرق وسطی میں خاص کر فلسطینیوں کے مسئلہ کی یکسوئی اور اسرائیل کی جارحیت پر لگام لگانے کے لیے مضبوط قدم اٹھائے جانے کی ضرورت کے ساتھ یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ عالم اسلام کی ایک نئی شبہہ بن کر ابھرے گی ۔

سائنس و ٹکنالوجی میں پیچھے اسلامی ممالک کو خلائی سائنس اور دیگر سائنسی شعبوں ، ہتھیار سازی پر توجہ دینے کی بھی ترغیب ملے گی ۔ ترکی میں اسلام پسندوں کے خلاف جاری خفیہ سازشوں کو ختم کرنے کی بھی ضرورت محسوس ہوگی کیوں کہ اب رجب طیب اردغان کی کامیابی کے بعد اسلام پسندوں کے خلاف گمراہ کن پروپگنڈے شروع کئے جائیں گے ۔ پہلے ہی سے اسلام اور اسلام پسندوں کو نشانہ بنانے والی طاقتیں اب نئے ناپاک منصوبوں اور سازشوں کے ساتھ ترکی کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گی ۔ لہذا بھاری اکثریت سے منتخب صدر رجب طیب اردغان کو صحافت کی آزادی کو سلب کرنے کے الزامات کا جائزہ لیتے ہوئے ترکی کے میڈیا شعبہ کو بھی مستحکم بنانے پر غور کرنا ہوگا کیوں کہ ترکی کے ان انتخابات میں میڈیا نے بھی اپنا منصفانہ رول ادا کیا ہے ۔ ترکی کی معیشت میں مزید بہتری لانے کے لیے جہاں شرح سود پر قابو پایا گیا ہے وہیں بیرونی سرمایہ کاری کے بہاؤ کو بہتر بنانے پر دھیان دینا ہوگا ۔ مشرق وسطی کی آگ بجھانے کے لیے نئی حکمت کی شدید ضرورت ہے ۔ فلسطین ، شام ، لبنان وغیرہ میں روس ، امریکہ کی دوہری پالیسیاں ان اسلامی ملکوں کی شناخت ختم کرنے کا موجب بن رہی ہیں اس کو ناکام بنانا اشد ضروری ہے ۔ روس ہو یا ناٹو افواج اسلامی ملکوں پر بمباری کر کے اپنے مقاصد میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ یہاں سے ان کے مقاصد کو اُلٹ دینے کی حکمت عملی بنانی ہوگی ۔۔