رب تو سب کا ہے لیکن

نہ سنیں گے وہاں کوئی بیہودہ بات اور نہ جھوٹ۔ یہ بدلہ ہے آپ کے رب کی طرف سے بڑا کافی انعام۔ (سورۃ النبا۔۳۵،۳۶)

آپ کے رب کی طرف سے ان متقین کو یہ بدلہ ملے گا، یہ محض اللہ تعالی کا فضل و احسان ہوگا اور یہ اتنی وافر مقدار میں دیا جائے گا
کہ لینے والے کہیں گے ’’بس بس! ہمیں اتنا ہی بہت ہے، ہمیں اور نہیں چاہئے‘‘۔ یہ انعام و اکرام کیونکہ ان کے اعمال صالحہ کے عوض میں ہے،
اس لئے اسے جزا کہا گیا ہے، کیونکہ اس میں اللہ کا فضل و احسان جلوہ نما ہے اس لئے اسے عطا کہا گیا ہے۔ قتادہ نے اس کا معنی کثیر بتایا ہے۔ جب کسی کو کوئی چیز اتنی فراواں مقدار میں دی جائے کہ وہ خود کہہ اٹھے بس بس مجھے اتنا کافی ہے تو لغت عرب میں کہتے ہیں ’’احسبتُ فلانًا‘‘ میں نے اسے بہت عطا کیا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ’’حسابًا‘ ‘سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جتنا کسی کے ساتھ وعدہ کیا ہے، عطا اس کے مطابق ہوگی۔ بعض کو ایک کے بدلے دس، بعض کو ایک کے بدلے سات سو اور بعض کو بے حد و حساب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ہر شخص کو اس کے خلوص نیت اور عجز و نیاز کی کیفیت کے مطابق اجر ملے گا۔ (قرطبی)

جب دوزخیوں کی سزا کا ذکر ہوا تو صرف ’’جزائً وفاقا‘‘ فرمایا گیا اور جب اہل جنت پر اپنے جودوکرم کی بارش فرمانے کا موقع آیا تو اس کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا اور اپنی شان ربوبیت کی اضافت اپنے حبیب مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی طرف فرمادی۔ رب تو سب کا ہے، لیکن صفت ربوبیت کا جو خصوصی تعلق ذات پاک مصطفی علیہ التحیۃ والثناء سے ہے، وہ کسی اور کو نصیب نہیں، نہ عرش کو، نہ کرسی کو، نہ جبریل کو، نہ حضرات نوح و خلیل علیہما السلام کو۔