مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ
بندگی کا کمال اللہ سبحانہ کی مرضیات پر چلتے ہوئے عبدیت کے تقاضوں کی تکمیل ہے ،دل کی گہرائیوں سے آنے والی صدائیں زبان سے نکلنے والی ہر آوازیہی ہو ’’کہ میری نماز،میری قربانیاں ،میراجینا اورمرناسب کا سب اللہ سبحانہ کیلئے ہے جوسارے جہانوں کا رب ہے‘‘(الانعام :۱۶۲)انسان کی سجدہ ریزیاں اوراسکی نیازمندیاں صرف اورصرف الہٰ واحد کیلئے ہوں ، زندگی نام ہے امتحان وآزمائش کا اورجواس امتحان میں کامیاب ہوں وہی اللہ کے ہاں کامیاب ،بامراداورسرفرازہوتے ہیں ،اللہ سبحانہ کے جتنے الوالعزم انبیاء ورسل علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے سب آزمائش کے منزل سے گزارے گئے ،حضرت سیدنا نوح علیہ السلام ساڑھے نوسوبرس تک حق کی راہ میں مصائب وآلام جھیلتے رہے ، حضرت سیدنا یعقوب وحضرت سیدنا یوسف علیہما السلام سخت ترین آزمائش وامتحان کے منازل سے گزارے گئے،سورہ یوسف کی تلاوت اوراسکے معانی میں غوروتدبرسے وہ سارے مناظر نگاہوں کے سامنے سے گزرتے ،دل کے دنیا میں ایک انقلاب برپا کرتے اورروح ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔حضرت سیدنا ایوب علیہ السلام کی آزمائشیں بڑی صبرآزماتھیں جسمانی امراض ، اہل وعیال کی جدائی کے روحانی صدمات ہر پہلوسے وہ سخت امتحان کے منزل میں رہے لیکن صبرکا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پایا ان سخت حالات میں بھی وہ صبرکے انتہائی اعلی درجہ پر فائزرہتے ہوئے سراپا شکربنے رہے، حضرت یحی علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی رہبری فرمائی اللہ سبحانہ کے احکام کی نافرمانی اوربرے اخلاق سے انکو بچانا چاہا توصرف اس پاداش میں انکی جان پر بن آئی اس وقت کے ظالم حکمران نے انکا سر تن سے جداکردیا ، حضرت عیسی علیہ السلام بھی دین توحید کی اشاعت وتبلیغ میں مظالم کا شکارہوئے ،انکی دانست میں نعوذباللہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی پرچڑھا دیا وہ اس سے خوش ہیں اوریہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح اپنی جان کی قربانی دیکرہمارے گنا ہو ںکا کفارہ بن گئے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت ایسی نہیں ہے قرآن پاک کی روسے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ سبحانہ نے آسمان پر زندہ اٹھا لیا اورقیامت کے قریب وہ دوبارہ دنیا میں رونق افروز ہوں گے ۔
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی اسی مقدس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اللہ سبحانہ نے ان سے کئی امتحان لئے اوروہ ہرآزمائش وامتحان میں کامیاب ہوئے ۔کمال درجہ توحیدکے تقاضوں کی تکمیل ،مرضیات رب کی بے نہایت پاسداری،قلب وروح کی گہرائیوں سے روح شریعت کوسامنے رکھتے ہوئے احکام شریعت کی اتباع سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کی زندگی کے پاکیزہ نقوش ہیں،حکم الہی سے اپنی رفیق حیات اورننھے فرزندکوچٹیل ریتیلے بے آب و گیاہ مقام پر چھوڑدینا ،نورنظر لخت جگرکواللہ کی حکم کی تعمیل میں اللہ کے راہ میں قربان کرنے کا عمل ، نارنمرود میں ڈالاجانا یہ وہ امتحانات ہیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ انکے فرزندجلیل سیدنا اسماعیل علیہ السلام پیکرتسلیم ورضا ثابت ہوئے۔یہ مبارک مہینہ ذی الحجۃ الحرام کا ہے جسمیں مناسک حج اداکئے جاتے ہیں اور عیدالاضحی حضرت سیدنا ابراہیم ؑکا اپنے فرزندجلیل سیدنا اسماعیل ؑکو اللہ کا حکم بجالاتے ہوئے قربان کرنے کے واقعہ کی یادگارہے۔اللہ سبحانہ کو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو قربان کروانا مقصودنہیں تھا بلکہ ہر دوکا اس میں امتحان تھا اوراس امتحان میں دونوں کے دونوں ایسے کامیا ب ہوئے کہ اس دن کو اللہ نے یادگاردن میں تبدیل کردیا، سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بدلے جنت سے آیا ہوا دنبہ ذبح ہوگیا اورقرآن نے اسکی قبولیت کا ایسے اعلان کیا کہ ’’اے ابراہیم تم نے اپنے خواب کو سچ کردکھا یا اورہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں ‘‘ اللہ سبحانہ نے اس قربانی کوایسے قبول فرمایا کہ قیامت تک آنے والے سارے صاحب استطاعت مسلمانوں پر اس قربانی کو واجب کردیا ، قربان کی یہ یادگاراس بات کا درس دیتی ہے کہ ایمان والے اپنی جان اپنے مال وغیرہ کے مالک نہیں ہیں وقت پڑنے پر جان ومال کی قربانی سے ایمان والے کبھی دریغ نہیں کریں گے ۔
یقینا تمام انسانوں میں سب سے زیادہ آزمائش وامتحان کی گھڑیاں انبیاء کرام علیہم السلام کوپیش آتی ہیں پھرجوبہ اعتبار قرب اللہ سے قریب ہوتے ہیں وہ آزمائے جاتے ہیں ،اللہ سبحانہ کے ہاں ایمان کے بعد جوچیزسب سے زیادہ قابل قدرہے وہ اعلی اسلامی اخلاق و اقدار ہیں،جنکا مرکزی محورتوحید باری ہے سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ کفروشرک کا گڑھ تھا پورا خاندان وقبیلہ اورساری قوم بت پرستی کے دلدل میں دھنسی ہوئی تھی ،عقائد واعمال ،رسوم ورواج سارے کے سارے مشرکا نہ تھے ایسے میں دین توحید ان تک پہنچا نے اوردعوت وتبلیغ کا فرض پورا کرنے کی گراں بہا ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ڈالی گئی ،اس عظیم توحید کے مشن کوآگے لے چلنے اورقوم کو کفروشرک کی تاریکیوں سے نکالنے کی کوششوں کے صلہ میں سخت امتحان وآزمائش سے گزارے گئے یہاں تک کہ نارنمرود میں ڈالے گئے ، اللہ سبحانہ کے حکم سے نارنمرودٹھنڈی اورباعث سلامتی بن گئی ۔اس امتحان کے بعد وطن عزیزکو چھوڑکرشام کی طرف ہجرت کا حکم ملا ،حکم الہی کی تعمیل میں رضاالہی کی خاطرشام کی طرف ہجرت کی اوراہل وعیا ل کے ساتھ وہاں بودوباش اختیارکی،کچھ وقت نہیں گزرا تھاکہ ایک اورآزمائش کا سامنا ہوا حکم ملا بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہا اورانکے شیرخوارفرزندحضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لیکر ملک شام سے بھی رخت سفرباندھیں چنانچہ جبرئیل امین علیہ السلام کی معیت میں منزل بہ منزل کوچ کرتے ہوئے اس ریگستان تک پہنچے جہاں اللہ سبحانہ کو روحانی مرکزبیت اللہ کی تعمیراوراسکی اطراف ایک شہرآباد کرنا منظورتھا ، اللہ سبحانہ کے حکم کی تعمیل میں قلبی مسرت وکیف اورروحانی آسودگی کے ساتھ اس بے آب گیاہ میدان میں قیام پذیرہوگئے یہا ںپھر اورایک آزمائش کا سامنا ہوا پر وردگارکا حکم ملا کہ اے ابراہیم اپنی بیوی اور ننھے فرزند کویہاں چھوڑکرملک شام تنہا واپس ہوجاؤ ،اللہ کے اس حکم کو بسروچشم قبول کرکے اللہ سبحانہ کی رضامیں راضی وخوش رہتے ہوئے ملک شام رخصت ہوگئے ،الغرض بی بی ہاجرہ اپنے شیرخوارلخت جگرکے ساتھ اس بے آب وگیاہ اورچٹیل میدان میں زندگی گزارنے لگیں ،اللہ کی شان کہ اس ریگستان میں ان مبارک ہستیوں کی برکت سے معجزانہ پانی کا چشمہ جاری ہوا جوآج بھی زمزم کے نام سے موسوم ہے ،مرکزتوحید بیت اللہ کی تعمیر ہوئی اوراسکے حج کی فریضہ کی ادائیگی وغیرہ جیسے مہتم بالشان احکام ساری انسانیت کو دئیے گئے ۔ ان آزمائشوں سے مقصودحضرت ابراہیم خلیل اللہ السلام کو تربیت کے ذریعہ ایک بندہ کامل بنانا اور انکومراتب قرب وبلنددرجات تک پہونچانا اوراللہ سبحانہ کا آپ کو اپنی خلت کی خلعت فاخرہ عطا کرنا تھا۔ ایمان ایک عظیم الشان نعمت ہے اسکا کوئی بدل نہیں دنیا جہاں اوراسکے سارے خزانے بھی ایمان کا بدل نہیں بن سکتے ،روزحشرکسی کے ہاں دولت کے خزانے رہیں یہ تو ممکن نہیں بالفرض کوئی خزانو ں کا مالک ہواوروہ فدیہ دیکرجان چھڑانا چاہے توممکن نہیں کہ وہ عذاب الیم سے بچ سکے ،ارشادباری ہے’’یقینا جواللہ کا انکارکرتے ہوئے اسی انکاروکفرمیں دنیا سے رخصت ہوجائے ان میں سے کوئی زمین بھرسونا دے اگرچہ کہ وہ فدیہ ہی میں کیوں نہ ہو ہرگزقبول نہیں کیا جائیگا یہی وہ لوگ ہیں جنکے لئے دردناک عذاب ہے اورجنکا کوئی ناصروحامی نہیں ‘‘(آل عمران :۵۱)
اسلام کے پیام رحمت کو عام کرنے میں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کوبھی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ،آپ ﷺکی ساری مبارک زندگی راہ حق میں امتحان وآزمائش سے عبارت ہے ،آپ ﷺ فرما تے ہیں کہ گروہ انبیا ء میں جتنی شدید آزمائشیں میرے حصہ میں آئی ہیں اتنی کسی اورنبی کے حصہ میں نہیں آئیں ۔امت مسلمہ اس وقت شدیدامتحان وآزمائش کے دورسے گزررہی ہے ،ایمان واسلام کوسینے سے لگانے کے معنی یہی ہے کہ وہ آزمائش وامتحان سے دوچارہو،ایسے حالات میں ایمان واسلام کے تقاضوں کو مقام احسان وسلوک پر فائزرہتے ہوئے اداکرنے سے کامیابی قدم چومتی ہے ،دشمنوں کے حوصلے اسی سے پست ہوتے ہیں اورامت بہ ارشادربانی ’’وانتم الاعلون ان کنتم مومنین ‘‘کے مژدہ جانفرا کی مستحق بن سکتی ہے ،اس آیت پاک میں دراصل امت مسلمہ کی طاقت وقوت،شان وشوکت اورانکی اصل کامیابی کا رازبیان کردیا گیا ہے ۔امت مسلمہ نے اس حقیقت کو فراموش کردیا ہے جسکے نتیجہ میں آج وہ ذلت ونکبت کا شکارہے ۔