سرکاری تلاطم میں خس و خار کی مانند
یکجہتی و اخلاص کے مینار گرتے ہیں
رام مندر کیلئے دوبارہ مہم
سینئر بی جے پی لیڈر سبرامنین سوامی نے ایک بار پھر رام مندر مسئلہ کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کیلئے آئندہ سال سے مہم شروع کردی جائیگی ۔ انہوں نے ایک ہندو تنظیم کے قیام کا اعلان کیا اور بتایا کہ ان کی تنظیم نوجوانوں میں ہندوتوا اقدار کی بحالی کیلئے جدوجہد کریگی جن میں گاؤکشی پر امتناع ‘ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ اور دستور کے دفعہ 370 کی تنسیخ بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ رام مندر کی تعمیر اس تنظیم کی اولین ترجیح ہوگی جس کیلئے مہم آئندہ سال سے شروع کی جائیگی ۔ سبرامنین سوامی کی یہ ترجیحات کچھ اور نہیں بلکہ صرف آر ایس ایس اور ہندوتوا کی فاشسٹ طاقتوں کا ایجنڈہ ہے ۔ آر ایس ایس اور دوسری فرقہ پرست تنظیمیں گذشتہ کئی دہوں سے ملک میں ان مسائل پر نفرت کا بازار گرم کرتی آ رہی ہیں۔ بی جے پی نے ان ہی تنظیموں کی نفرت انگیز مہم کو ہوا دیتے ہوئے اپنے لئے سیاسی فائدہ حاصل کیا تھا اور بالآخر ان ہی تنظیموں کی فاشسٹ پالیسیوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے بی جے پی کو مرکز میں اقتدار بھی حاصل ہوگیا ہے ۔ ان مسائل پر بی جے پی کے مختلف قائدین مختلف انداز سے بیانات دیتے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں متنازعہ بیانات دینے میں مصروف ہے ۔ اتر پردیش کے گورنر رام نائک نے بھی اپنے عہدہ کا وقار برقرار رکھنے کی بجائے رام مندر کی تعمیر کیلئے منصوبہ کو قطعیت دینے کی بات کہی تھی ۔ مرکز نے اس تعلق سے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور اسی وجہ سے مختلف گوشوں سے مختلف انداز میں نفرت کا بازار گرم کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب سبرامنین سوامی بھی اس معاملہ میں دوسروں سے پیچھے رہنے کی بجائے ان سے آگے نکلنے کی فکر میں جٹ گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بی جے پی کیلئے آئندہ وقتوں میں ہونے والے انتخابات کیلئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ بی جے پی میں اپنے موقف کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کیلئے وہ جن مسائل کو اپنا ہتھیار بنا رہے ہیں ان سے سماج میں نفرت کا بازار ہی گرم ہوگا ۔ اس سے ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کی سمت کوئی پیشرفت نہیں ہوگی ۔ جنونیت پسندوں کو دوبارہ ملک کا ماحول متاثر کرنے کیلئے موقع مل جائیگا جس کا وہ پوری طرح استحصال کرسکتی ہیں۔
رام مندر کے نام پر بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیموں و جماعتوں نے پہلی ملک کے ماحول کو انتہائی پراگندہ کردیا تھا ۔ سارے ملک میں اس وقت خون کی ہولی کھیلی گئی جب مندر کے حق میں ایل کے اڈوانی نے رتھ یاترا منظم کی تھی ۔ جس جس شہر اور جس جس ریاست سے یہ یاترا گذری وہاں قتل و خون کا بازار گرم ہوگیا تھا ۔ ملک بھر میں نفرت کا ماحول انتہائی گرم ہوچکا تھا اور اسی ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی کو مرکز میں اقتدار تک پہونچنے میں مدد ملی تھی ۔ حالانکہ ملک کے عوام کا ایک بڑا حصہ ایسے ماحول کو پسند نہیں کرتا لیکن جس انداز سے سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیمیں عوام کو ورغلانے میں کامیاب ہو رہی ہیں وہ ملک کے مستقبل کیلئے اچھی علامت نہیں کہا جاسکتا ۔ ہر فکرمند اور متفکر گوشے سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ ملک میں نفرت کو پھیلنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے اور سماج کے تمام طبقات میں اعتماد پیدا کرتے ہوئے ساری توانائیاں اور توجہ ترقی پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے ماحول میں اب بی جے پی لیڈر کی جانب سے دوبارہ رام مندر کی تعمیر کے لئے مہم شروع کرنے کا اعلان کرنا تشویش کی بات ہے ۔ پہلے ہی بابری مسجد کی شہادت کا مقدمہ عدالت میں زیر دوران ہے ۔ اس سلسلہ میں کئی اہم قائدین کو نوٹسیں جاری کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اراضی کی ملکیت کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے ۔ اس سب کے باوجود دوبارہ مندر کیلئے مہم شروع کرنا عدالت پر یقین نہ ہونے کا ثبوت ہے ۔
اب نت نئے انداز سے اس مسئلہ کو دوبارہ موضوع بحث بنانا اور عوام سے رجوع ہونا سماجی سطح پر ماحول کو پراگندہ کرنے کی سازش ہے ۔ اس طرح کی مذموم سازشوں سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور مرکزی حکومت ہو یا اس مسئلہ کے فریقین ہوں سبھی کو اس مسئلہ پر کسی طرح کی اشتعال انگیزی کی بجائے عدالتوں میں زیر دوران مقدمات کی یکسوئی کا انتظار کرنا چاہئے ۔ ملک کی عدلیہ پر سبھی گوشوں اور فریقین کو یقین اور اعتماد کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے اور عدلیہ میں اس مقدمہ کا فیصلہ سبھی فریقین کیلئے قابل قبول ہونا چاہئے ۔ عدالتی فیصلوں کا انتظار کئے بغیر اس طرح کی مہم شروع کرنے کا اعلان کرنا ملک کے پرسکون ماحول اور سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی سازش ہوسکتی ہے اور ایسی سازشوں کو ناکام بنانا ضروری ہے ۔