جسے بھی دیکھئے فرعون جیسا لگتا ہے
کلیم ہاتھ میں کیا جانے کب عصا لے گا
رام مندر کیلئے آرڈیننس کا مطالبہ
جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے متنازعہ مسائل کو اچھالا جا رہا ہے ۔ اب جبکہ ملک میں عام انتخابات کیلئے 8 ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور ملک کی اہم ریاستوں چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور تلنگانہ کے علاوہ میزروم میں بھی اسمبلی انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے رام مندر کے مسئلہ کو اچانک ہی موضوع بحث بنانے کا آغاز ہوچکا ہے ۔ اب تک جو اوپینین پول یا سروے سامنے آئے ہیں ان کے مطابق تین ریاستوں میں بی جے پی کو اقتدار سے محرومی کے اندیشے لاحق ہیں اور یہاں کانگریس پارٹی اقتدار پر واپسی کرسکتی ہے ۔ اگر یہ پیش قیاسیاں درست ثابت ہوتی ہیں تو پھر آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں بھی بی جے پی کیلئے مشکل صورتحال رہے گی ۔ ایسے میں ہندو توا طاقتوں اور تنظیموں کی جانب سے ایک بار پھر اپنے آزمودہ رام مندر مسئلہ کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیموں کی جانب سے اور بھی مسائل کو اچھالا گیا ہے ۔ ہندو مسلم تفریق کو شدت کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے ۔ ہر کام کو مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے ۔ شہروں کے نام ہندو ناموں اور روایات سے تبدیل کئے جا رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود بی جے پی کو عوام کی برہمی کے اندیشے لاحق ہیں اور جو سروے اور اوپینین سامنے آ رہے ہیں ان میں بی جے پی کیلئے حالات سازگار ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں اور ایسے میں بی جے پی ہو یا آر ایس ایس انہیں ایک بار پھر رام مندر مسئلہ میں ہی سیاسی پناہ نظر آ رہی ہے ۔ یہی وجہ سے ہے کہ مختلف گوشوں سے رام مندر کے مسئلہ کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ 2019 سے قبل رام مندر کی تعمیر کا آغاز ہوجائیگا ‘ کوئی کہہ رہا ہے کہ اس پر اب عدالتی فیصلے کا انتظار نہیں کیا جائیگا اور حکومت کا عملا کنٹرول رکھنے والے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے مندر کی تعمیر کیلئے آرڈیننس کی اجرائی کا مطالبہ کیا ہے ۔ حالانکہ عدالت میں ابھی بھی یہ مسئلہ زیر دوران ہے اور فریقین عدالتی سماعت اور اس میں پیشرفت کے منتظر ہیں ایسے میں آرڈیننس کی اجرائی کا مطالبہ کرنا یا پھر تعمیرشروع کرنے کا اعلان کرنا مناسب نہیں ہے ۔
کئی گوشوں سے جو بیانات دئے جا رہے ہیں وہ عملا عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی مساعی کہے جاسکتے ہیں۔ کچھ تبصرے تو عدالت کی توہین کے مترادف بھی ہوسکتے ہیں لیکن ان پر حکومت کسی طرح کی کارروائی کرنے یا اس کا نوٹ لینے کی بجائے خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور اپنی خاموشی کے ذریعہ وہ ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ ملک میں چاہے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ہوں یا مرکزی وزرا ہوں یا وشوا ہندو پریشد کے قائدین ہوں یا پھر حکومت کے نمائندے ہی کیوں نہ ہوں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کسی کو عدالتی کارروائی میں مداخلت کرنے کا کوئی حق حاصل ہے ۔ کسی بھی گوشے سے عدالت پر دباو ڈالنے کی کوششیں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ ایسے میں جو بیانات جاری کئے جا رہے ہیں ان کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی فرقہ یا طبقہ کا کوئی عقیدہ رہا ہو یا ان کی آستھا رہی ہو لیکن عقیدہ اور آستھا کی بنیاد پر ملک نہیں چلایا جاسکتا اور نہ ہی قوانین کی دھجیاں اڑائی جاسکتی ہیں۔ ملک میں جو مروجہ نظام قوانین ہیں ان کے مطابق ملک کو چلایا جائیگا ۔ ان کے مطابق عدالتیں کام کرینگی اور ان کے فیصلوں کو ماننا ہندوستان کے ہر شہری کیلئے فرض ہے ۔ اس کے باوجود اگر کچھ لوگ خود کو ماورائے قانون اتھاریٹی سمجھتے ہیں تو انہیں ان کے مقام سے واقف کروانا ضروری ہے ۔
کچھ گوشوں کی جانب سے یقینی طور پر انتخابات پر اثر انداز ہونے اور ملک و قوم کو درپیش حقیقی سنگین مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشوں کے طور پر اس طرح کی بیان بازیاں کی جا رہی ہیں سماج میں ماحول کو کشیدہ کیا جا رہا ہے ۔ انتخابات سے قبل کشیدگی اچھی علامت نہیں ہے ۔ اس سے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹ جاتی ہے اور پھر ہندو ۔ مسلم فرقہ پرستانہ ذہنیت کو فروغ حاصل ہوتا ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی تنظیمیں یہیں چاہتی ہیں تاکہ تمام تر ناکامیوں کے باوجود بی جے پی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوجائے ۔ عوام کے سامنے جوابدہی سے بی جے پی بچنا چاہتی ہے ۔ ملک کے عوام کو اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہئے ۔