رافیل ‘ حقائق کی پردہ پوشی کیوں؟

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
رافیل ‘ حقائق کی پردہ پوشی کیوں؟
رافیل معاملت پر جیسے جیسے وقت گذرتا جا رہا ہے مختلف گوشوں سے الزامات عائد کئے جانے لگے ہیں۔ ویسے تو ابتداء سے کانگریس کے صدر راہول گاندھی اس معاملت پر سنگین الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یو پی اے حکومت میںیہ طیارے خریدنے کیلئے جو معاہدہ ہوا تھا اس میں ان طیاروں کی قیمت انتہائی کم تھی جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ان طیاروں کی خریدی کیلئے اپنے حلقہ احباب میں ایک کمپنی کو ذمہ داری سونپتے ہوئے اس کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے ۔ فرانس کے ساتھ اس معاملہ میں سمجھوتے ہوئے ہیں۔ یہ سمجھوتے ویسے تو یو پی اے کے دور حکومت ہی میںہوگئے تھے جب ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم تھے ۔ تاہم نریندرمودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس میںکچھ ترامیم کی گئی ہیں۔ ان ترامیم کے ذریعہ ایک کمپنی کو فائدہ پہونچانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ حکومت سے بارہا اصرار کیا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملت کی تفصیلات کو عوام کے سامنے پیش کرے ۔ ملک کی پارلیمنٹ میں اس تعلق سے سوال کئے گئے ہیں۔ راست وزیر دفاع سے سوال کیا جا رہا ہے لیکن کہیں بھی اس پر کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ہے ۔ الزام کے جواب میں الزامات عائد کئے جا رہے ہیں یا پھر تنقیدوں کا سہارا لیا جا رہا ہے لیکن حقیقت کو سامنے لانے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ یہ عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ فرانس کے ساتھ جو سمجھوتہ ہے اس کے مطابق حکومت اس کی تفصیلات کو عام نہیںکرسکتی ۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ حکومت کسی بیرونی ملک کے ساتھ ہوئے معاہدہ کا عذر پیش کرتے ہوئے ملک کے عوام کو ‘ جن کے ٹیکس کی رقومات سے یہ سودا طئے ہوا ہے ‘ تفصیل بتانے سے انکار کر رہی ہے ۔ اگر حکومت عوام میں ان تفصیلات کو پیش نہیں کرسکتی تو عدالتوں کو یا پھر پارلیمنٹ کو اس میںشامل کیا جاسکتا ہے اور ایوان میں اس کی تفصیلات کو پیش کیا جاسکتا ہے تاکہ جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ان کی نفی ہوسکے ۔ ایسا کرنا حکومت کی ذمہ داری بھی ہے لیکن مودی حکومت ایسا کرنے کو بالکل بھی تیار نظر نہیں آتی ۔
اب تو ایسے گوشوں سے بھی سوال اٹھنے لگے ہیںجو خود حکومت کے نمائندے رہے تھے ۔ بی جے پی کے سینئر قائدین و سابق مرکزی وزرا یشونت سنہا اور ارون شوری نے بھی اس معاملت پر سوال اٹھایا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ رافیل معاملت ایک بہت بڑا اسکام ہے ۔ یہ در اصل بوفورس سے بڑا اسکام ہے ۔ ہر گوشے سے ہونے والی تنقیدوں کو صرف تنقید سے دبانے کی کوشش ہو رہی ہے اور ان الزامات کا جواب نہیں دیا جا رہا ہے جو ملک کے عوام کے ذہنو ں میں بھی پنپنے لگا ہے ۔ جہاں تک فرانس کے ساتھ معاہدہ کا سوال ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدہ کی رو سے حکومت تفصیلات بیان نہیں کرسکتی تو کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے لوک سبھا میں واضح انداز میں یہ صاف کردیا کہ ان کی خود فرانس کے صدر سے بات ہوئی ہے اور انہو ںنے ان تفصیلات کو راز میں رکھنے سے متعلق کسی معاہدہ یا سمجھوتہ سے انکار کردیا ہے ۔ اگر راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میں یہ بات کہی ہے تو اس میں یقینی طور پر کوئی سچائی ضر ور ہوسکتی ہے ۔ اگر اس میںسچائی نہیںہے تو حکومت پھر راہول گاندھی سے جواب طلب کرے اور ایوان میں گمراہ کن بیان دینے کے تعلق سے کوئی کارروائی کرے ۔ حکومت ایسا بھی کچھ کرنے سے گریز کر رہی ہے جس سے حکومت کے بیانات اور اس کے ادعاجات پر شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ان شکوک کا ازالہ کرنا حکومت کا کام ہے اور یہ بہر قیمت کیا جانا ضر وری ہے ۔
رافیل طیاروں کی خریدی یقینی طور پر ملک کے دفاع اور سلامتی سے متعلق ہے ۔ تاہم اس میں کوئی ایسا راز شامل نہیں ہے جس کے افشا سے ملک و قوم کی سلامتی پر کوئی آنچ آسکے ۔ طیاروں کی خریدی کا مسئلہ ہے اور اس میں ہزاروں کروڑ روپئے کے اخراجات کا بھی سوال ہے ۔ اگر ہزاروں کروڑ روپئے طیارہ کی قیمت میںاچانک ہی اضافہ ہوجاتا ہے تو اس پر سوال اٹھنے لازمی ہیں اورجو اندیشے پیدا ہوئے ہیں وہ فطری ہیں۔ ان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ راست حکومتوں کے درمیان معاہدہ میں اگر کسی کمپنی یا درمیانی فرد کو شامل کیا جاتا ہے تو پھر یہ شکوک اور شبہات اور بھی تقویت پاجاتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو الزامات یا سوالات کے جواب میں محض تنقیدیں کرنے یا اکثریتی اجارہ داری سے کام لینے کی بجائے ان سوالات کے جواب دینے چاہئے اور حقائق کو پوشیدہ رکھنے سے گریز کرنا چاہئے ۔