مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
شہروں او ر بستیوں میںسڑکیں یا راستے انسانوں کی گذرگاہ ہوتے ہیں، جو ان کے عبور و مرور میں سہولت کی غرض سے بنائے جاتے ہیں، بسا اوقات راستے پر چلنے والا اپنی کسی شدید ضرورت کی بناء جلد از جلد راستہ طئے کرنے اور اپنی منزل تک بعجلت ممکنہ پہونچنے کی حاجت رکھتا ہے، کہیں کوئی مریض دواخانہ پہونچنے کا یا کوئی حاملہ کو جلد از جلد دواخانہ پہونچائے جانے کا مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے، یہ بھی کہ کسی کو سفر درپیش ہو اور ٹرین، موٹر، یا ہوائی جہاز کے مقررہ وقت تک اس کو اپنی منزل تک پہونچ جانا ضروری ہو جاتا ہے، لیکن ہمارے سماج کے بعض غیر ضروری رواجات کی بناء راستوں میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، کبھی جلسہ و جلوس کے عنوان سے اور کبھی ریالیوں کی وجہ سے راستے جام ہو جاتے ہیںہندوستان کے اکثر شہروں میںمذہبی عنوان سے جلوس نکالے جانے کارواج زور پکڑتا جا رہا ہے اور یہ بھی راستہ روکنے کا اک سبب بن رہا ہے چند سال قبل تک اسکا کوئی رواج نہیں تھامذہبی تہوار عام طور پر اپنی اپنی عبادت گاہوں میں منا لئے جا تے تھے اور ہو نا بھی یہی چاہئے ۔
لیکن اب ایسا محسوس ہو تا ہے کہ مذہبی عقیدت کے بجائے دوسروں کو ایذا پہنچانے کی غرض سے یہ جلوس نکالے جا رہے ہیں،جلوس کے اہتمام میں مسابقت کا جذبہ روز افزوں ہے، مذہبی تہوار کسی وقت انسانی میل ملاپ اور آپسی محبت و خلوص کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ ہوا کر تے تھے۔اور اب صورت حال اس کے برعکس ہے ،بجائے پیار و محبت کے ان کی وجہ نفرت و عداوت کو بڑھاوا مل رہا ہے ایسے میںان جلوسوںکی شناخت مذہبی تہواروں کی حیثیت سے نہیں کی جا سکتی بلکہ یہ تو مذہب کی آڑ میں غیر مذہبی و غیر انسانی برتائو کو عام کر رہے ہیں۔غیر مسلم اکـثریت کے جلوس تو انگنت ہیں جو سال میں کئی مرتبہ نکالے جا تے ہیں ادھر چند دنوں سے مسلم برادران بھی مذہبی عنوان سے کچھ جلوس نکالنے لگے ہیںجو سال تمام میں اک یا دو مرتبہ سے زائد نہیں ہیںاس وقت ضرورت اس بات کی ہے مسلم اور غیر مسلم طبقے کے ذمہ دار مل جل کر بیٹھیں اور اس پر سنجیدگی سے غور کریںکہ ہمارے جلوس اپنے اپنے مذہبی ہدایات کی روشنی میں کس حد تک ضروری ہیں اور اگر ضروری نہیں ہیںتو پھر کیا ہم ان جلوسوں کے اہتمام سے دستبردار نہیں ہو سکتے؟ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ جلوس بجائے محبت کے نفرت کا تخم بو رہے ہیں اور یہ بھی کہ ان جلوس کی وجہ سے راستوں میں بڑی روکاوٹ ہورہی ہے اور راستوں کا مقصد جو عبور و مرور ہے وہ فوت ہو رہا ہے ۔اک بہت بڑا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ان جلوسوں کی اگر کوئی مذہبی حیثیت ہو تی تو کچھ سال پہلے تک ان کا اہتمام کیوں نہیں کیا جا تا رہا۔کیا اُس دور کے لوگ اپنے مذہب پر کار بند نہیں تھے؟ ظاہر ہے ان کے مذہبی رہنماوٰں کے ہاں اس کا جواب یہی ہوگا کہ ان جلوس کا مذہب کی بنیادوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی تعلق ہوتا تو اس دور کے لوگ اس کو اور زور و شور سے اس کا اہتمام کرتے۔ شہری آبادیوں میں روز بہ روز اضافہ کی وجہ سڑکیں اس وقت تنگدامنی کا شکوہ کر رہی ہیں ایسے میں جلوسوں کی وجہ جو موانعات کھڑی کی جا رہی ہیںوہ راستہ چلنے والوں کے لئے مزید عذاب بنتی جا رہی ہیں۔ ہندوستان اک سیکولر ملک ہے یہاں ہر اک کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ضرورہے، مذہبی آزادی کے ساتھ انسانوں کو فکر و عمل کی بھی آزادی حاصل ہے، لیکن اس آزادی کو مذہب و اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے اختیار کیا جا نا چائیے تاکہ ٹرافک کا مسئلہ قابو میں آ سکے۔ مسلم و غیر مسلم مذہبی و سیاسی دانشور مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں، کسی وجہ سے وہ اس مسئلے کو حل نہ کر سکیں، یا ان کو اس میں کامیابی نہ مل سکے تو حکومت کے ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ اک ایسا قانون مدون کریں کہ جس کی وجہ شہروں میں رہنے والوں کے لئے آسانی مہیا ہو اور ٹرافک میں خلل کی وجہ جو دشواری اور تکلیف لاحق ہو رہی ہے وہ دُور ہو، مذہب کے عنوان سے جب ان جلوس کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ کوئی ضرورت ہے تو پھر ان کو ختم ہو جا نا چاہئے۔اس لئے حکومت کو چائیے کہ وہ تمام مذاہب کے قائدین اور دانشوروں کو اعتماد میں لے کر یہ ہدایت جاری کرے کہ ہر فرقہ و مذہب کے ماننے والے اپنے مذہبی تہوار اپنی اپنی عبادت گاہوں میں انجام دیں۔اور کسی طرح کہ جلوس کا اہتمام نہ کریں۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے آزاد ملک کے آزاد باسیوں کی آزادی میں بڑا خلل ہورہا ہے وہ آزادی کے ساتھ اپنے ضروریات کی تکمیل کے لئے راستوں کو استعمال نہیں کر سکتے اور اس موقع پر گویا وہ اک طرح سے اپنے گھروں میں محصور رہنے پر مجبور ہو جا تے ہیں، اس لئے یہ مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض کا متقاضی ہے ، ملک میں رہنے والے سارے افراد بھی اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور اس اہم کام میں اچھا اور تعمیری رول ادا کریں۔اور اپنے ملک کو ان نفرتی جلوسوں سے پاک کر نے کی مہم چلا کر انسانی اخلاق کا ثبوت دیں۔
خوشی و غم کے بعض مواقع بھی بسا اوقات راستوں میں مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں، خاص طور پر شادی بیاہ کے موقع پر بیانڈ باجہ، اور آتشبازی کے ساتھ راستوں میں کرتب بازی کے مظاہرے بڑی دیر تک راستوں کو روک دیتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ ایک مریض دواخانہ پہونچنے سے پہلے راستے ہی میں دم توڑ دے، یا کسی حاملہ کا اثنائے راہ حمل وضع ہو جائے اور اسے اس وقت وہ مطلوب راحت میسر نہ آسکے، جو قبل از قبل دواخانہ پہونچنے کی وجہ سے ممکن تھی، یہ بھی ممکن ہے کہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے ایک مسافر مقررہ وقت تک مطلوبہ مقام تک نہ پہونچ سکے، جس کی وجہ اس کی سواری وقت مقررہ پر منزل کی طرف چل پڑی ہو، خوشی کے مواقع پر راستوں میں ساز و آواز کے ساتھ آتشبازی کا مظاہرہ بجائے خود بڑا اسراف اور جرم و گناہ ہے، اس کی وجہ ماحول صوتی آلودگی کا شکار ہو جاتا ہے، اطراف و اکناف میں رہنے والے کتنے ہی انسان بے حال ہو جاتے ہیں، اور کتنے ہی مریضوں اور ضعیفوں کیلئے یہ مظاہرے سوہان روح ثابت ہوتے ہیں، طبی تحقیق کے مطابق اس کے مضر اثرات بچوں کے اعضاء ریئسہ پر مرتب ہوتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ ان کی سماعت متاثر ہو ، یا دل و دماغ پر اس کے برے اثرات مرتب ہوں، اس کے ساتھ نوجوانوں کی کرتب بازی یہ بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، اس کی وجہ جہاں راہگیروں کو دشواری ہوتی ہے وہیں ان نوجوانوں کی زندگی اور ان کے قیمتی لمحات دائو پر لگ جاتے ہیں، کون ہے جو ان نوجوانوں کو اچھے مقصد کی طرف بلا سکے، اور ان کی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع ہونے سے بچا سکے، جو توانائیاں ان کی ناپسندیدہ مظاہروں میں صرف ہو رہی ہیں وہی اگر کسی بامقصد کام میں لگ سکیں تو ملک و ملت کو اس کا کتنا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، اور ان لا یعنی امور میں جہاں ان کی زندگی تباہ ہو رہی ہے وہیں ان کے ماں باپ افراد خاندان کے لئے ان کے یہ اعمال رسوائی کا باعث بھی بن رہے ہیں اور ان کے لئے روحانی کوفت، دل شکستگی ذہنی کوفت و تکلیف کا ماحول بنا رہے ہیں، ملک و ملت کو جو امیدیں ان نوجوانوں سے وابستہ ہیں اس کا خون ہو رہاہے، ان ساری خرابیوں کے ساتھ ایک بہت بڑی خرابی جو خوشی و غم کے مواقع پر مظاہروں کے ذریعہ سے محسوس کی جارہی ہے، وہ ٹریفک کا شدید خلل ہے،آبادی کی کثرت اور سڑکوں کی عدم وسعت کی بناء ان مظاہروں نے مزید دل آزارانہ صورت حال پیدا کر دی ہے،
لایعنی امور کی انجام دہی خود بہت بڑا جرم ہے، اس کے ساتھ راستوں میں لایعنی اعمال و اشغال اختیار کر کے راستوں میں رکاوٹ پیدا کرنا اس جرم کی شدت میں اور اضافہ کر دیتا ہے، شہروں میں رہنے بسنے والے انسان خواہ وہ کسی مذہب پر عمل پیرا ہوں ان سب کی ذمہ داری ہے کہ انسانی آداب و اخلاق کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے گذرگاہوں میں دشواری ہو اور راستہ چلنے والوں کیلئے مشکلات پیدا ہوں، ایمان والوں پر تو یہ ذمہ داری اور زیادہ بڑھ کر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے منع کئے ہوئے طور طریق سے اپنے آپ کو باز رکھیں، راستوں میں کسی بھی عنوان سے کوئی رکاوٹ نہ پیدا کریں، راستہ چلنے کے جو اسلامی آداب وہ احکام ہیں اس کی ہمیشہ پاسداری کریں۔ کیوں کہ اسلام کے علمبردار تو راستوں سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کر نے کے پابند ہیں، حدیث پاک میں وارد ہے کہ ایمان کے یوںتو ستر سے زائد شعبے ہیں، ان میں ایمان تو سب سے اعلی شعبہ ہے، لیکن جو اُ س کے ذیلی درجے ہیں اُن میں ایمان کا ایک درجہ اماطۃ الاذی عن الطریق’’ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے‘‘اہل اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی ہدایات کے مطابق راستوں کا استعمال کر کے ایک اچھا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں، یہ عمل بھی انشاء اللہ اچھے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے اور باطل مذاہب پر عمل کر نے والوں کو مسلمانوں کے اس اچھے عمل سے روشنی مل سکتی ہے۔عجب نہیں کہ یہ عمل اُن کے لئے اسلام سے قریب ہونے کا باعث بن جائے۔