حضور نظام کے دور کی عظیم الشان عمارت کی عظمت رفتہ بحال کرنے کا ہنوز موقع
حیدرآباد ۔ 30 ۔ اکٹوبر : ( نمائندہ خصوصی ) : راج بھون روڈ سوماجی گوڑہ میں اراضیات کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس علاقہ میں اراضیات کی قیمت سونے کی قیمت سے دس گنا زیادہ ہے ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس علاقہ میں کئی ایسی قدیم اور عظیم الشان عمارتیں ہیں جنہیں تاریخی آثار قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان عمارتوں میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے دور میں تعمیر کردہ ایک ایسی وسیع و عریض عمارت بھی شامل ہے جو تاریخی آثار قرار دئیے جانے کے باوجود مختلف سرکاری محکمہ جات کی غفلت کا شکار بنی ہوئی ہے ۔ قارئین ہم بات کررہے ہیں 1930 میں تعمیر کردہ گورنمنٹ نرسنگ کالج کی عمارت کی ۔ اس عمارت میں کچھ برس قبل تک بھی سرکاری نرسنگ اسکول چلایا جاتا تھا لیکن آج اس عمارت میں کوئی نہیں ہے بلکہ یہ عمارت بالکل خالی پڑی ہوئی ہے ۔ جہاں جانوروں نے اپنا بسیرا کرلیا ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ کبھی یہ عمارت حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدہ دار کی قیام گاہ ہوا کرتی تھی ۔ دو سال قبل اس تاریخی عمارت کے سامنے بلکہ احاطہ میں کئی منزل عمارت کی تعمیر شروع کی گئی تاہم سماجی جہدکاروں اور میڈیا کے اغراض پر آندھرا پردیش ہیلتھ ، میڈیکل ، ہاوزنگ اینڈ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے اس عمارت کی تعمیر روکدی تھی جو اب بھی اسی حالت میں ہے ۔ اس وقت آثار قدیمہ کے ماہرین نے حکومت کو توجہ دلائی تھی کہ ایک تاریخی آثار کے بالکل قریبی فاصلہ پر بلند و بالا عمارت کی تعمیر کے نتیجہ میں قدیم عمارت کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوجائے گا ۔ شہر کے بعض سماجی جہدکار اور تاریخی آثار کی حفاظت کی مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ حضور نظام کے دور کی اس عمارت کی تزئین نو کرتے ہوئے اس کی عظمت رفتہ بحال کی جاسکتی ہے ۔ اس سلسلہ میں تاریخی آثار کے تحفظ کا نعرہ لگانے والوں کو چاہئے کہ اس عمارت کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ ہمارے شہر میں ایک اور تاریخی عمارت ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہونے سے بچ جائے اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکاری ادارے کس طرح اس تاریخی آثار کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں ۔۔