سنتوش کمار کے نام کو قطعیت، نواب محبوب عالم خاں،
محمد سلیم اور عبدالرحیم سیفی کے نام بھی زیرغور
حیدرآباد ۔ 24 فروری (سیاست نیوز) راجیہ سبھا کے انتخابات کے اعلامیہ کے ساتھ ہی دعویداروں کی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ پہلے ملک گیر سطح پر 58 راجیہ سبھا کے اراکین کی میعاد ختم ہونے کے پیش نظر انتخابی اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے اور 5 مارچ کو انتخابی شیڈول کی اجرائی عمل میں لائی جائے گی اور 12 مارچ تک پرچہ نامزدگی حاصل کی جائے گی اور 23 مارچ کو رائے دہی ہوگی اور اسی روز شام 5 بجے سے رائے شماری عمل میں آئے گی۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ سے 3 ارکان راجیہ سبھا جن میں قابل ذکر چرنجیوی، رینوکاچودھری، دیویندر گوڑ اور تلنگانہ سے سی ایم رمیش، راپولو آنند بھاسکر اور پالوائی گوردھن ریڈی جن کا حال ہی میں انتقال ہوگیا تھا اور یہ نشست مخلوعہ تھی۔ تلنگانہ سے راجیہ سبھا کی نشست حاصل کرنے کیلئے ٹی آر ایس قائدین سرگرم ہوچکے ہیں اور اپنے اپنے طور پر راجیہ سبھا کی نشست حاصل کرنے کیلئے چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ پر دباؤ بنائے ہوئے ہیں۔ مسٹر چندرشیکھر راؤ اس خصوص میں پارٹی کے اہم قائدین سے متعدد مرتبہ بات چیت بھی کی ہے۔ تلنگانہ میں پارٹی کو مستحکم کرنے کیلئے اہم امیدواروں کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کرنے کیلئے فکرمند ہیں کیونکہ آنے والے سال منعقد ہونے والے عام انتخابات پر اس کا مثبت اثر ہوسکے۔ تینوں میں سے ایک نشست پر پارٹی کے جنرل سکریٹری سنتوش کمار کا نام تقریباً طئے ہوچکا ہے کیونکہ سنتوش کمار ٹی آر ایس پارٹی میں اہم رول ادا کرنے کے علاوہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کے چندرشیکھر راؤ پارٹی کے قائدین سے ان کے نام کا فیصلہ کرنے کی اطلاع ہے۔ مابقی دو نشستوں سے ایک نشست یادو طبقہ کو دینے اور ایک نشست اقلیتی طبقہ کو دینے کیلئے غور کررہے ہیں کیونکہ ریاست میں 12 فیصد تحفظات کی تحریک شدت اختیار کرچکی ہے اور اقلیتی طبقہ 12 فیصد تحفظات نہ ملنے کی وجہ سے بے چین ہے اور حکومت کی اقلیتی پالیسی پر نظر رکھی ہوئی ہیں۔ عام طور پر اقلیتی طبقہ کیلئے کئی ایک اعلانات کئے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل آوری نہیں کی جاتی ہے جس میں قابل ذکر بجٹ 1236 کروڑ روپئے مختص کئے گئے لیکن بجٹ خرچ مکمل نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اسکالر شپس اور قرضہ جات کی فراہمی و دیگر اسکیمات کو روبہ عمل لانے میں حکومت مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکی اور اپوزیشن کانگریس پارٹی ان چیزوں کو سختی کے ساتھ نوٹ کررہی ہے اور 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا وعدہ بھی مکمل ہونا حکومت کیلئے ناممکن نظر آرہا ہے کیونکہ یہ مسئلہ مرکزی حکومت کے پاس زیرالتواء تھا اور مرکزی حکومت نے تحفظات کی فراہمی سے انکار کردیا۔ ان حالات میں ریاست کے مسلمان ٹی آر ایس سے دور ہونے کے امکانات ہیں اور ایسے وقت میں اقلیتی طبقہ کو نمائندگی فراہم ہونے کی صورت میں اقلیتوں کو کسی حد تک خاموش تو کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے حکومت اقلیتی طبقہ کو نمائندگی فراہم کرنے کیلئے اور اقلیتی طبقہ سے صدرنشین وقف بورڈ محمدسلیم، نواب محبوب عالم خاں اور نظام آباد سے تعلق رکھنے والے عبدالرحیم سیفی راجیہ سبھا کی دوڑ میں شامل ہیں۔
محمد سلیم صدرنشین وقف بورڈ اس خصوص میں انتہائی جدوجہد دوڑ دھوپ میں لگے ہوئے ہیں تو نواب محبوب عالم خاں بھی اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے چیف منسٹر تک رسائی کررہے ہیں جبکہ عبدالرحیم سیفی رکن پارلیمنٹ نظام آباد کے کویتا اور کے ٹی آر کے ذریعہ کوشش کررہے ہیں۔ چیف منسٹر اقلیتی طبقہ کے بارے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رائے ظاہر کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں فائدہ حاصل ہونے والے امیدوار کو ہی نامزد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔