حیدرآباد۔13جنوری( سیاست نیوز) کانگریس پارٹی ہائی کمان کی جانب سے راجیہ سبھا میں 98 فیصد حاضری رکھنے والے مسٹر ایم اے خان کو دوسری میعاد کیلئے امیدوار بنانے کا قوی امکان ہے ۔ آندھراپردیش سے 5 ارکان کی میعاد مکمل ہورہی ہے جبکہ تلگودیشم کے ہری کرشنا نے متحدہ آندھرا کی تائید میں استعفی دیا تھا ۔ 6نشستوں کیلئے آئندہ ماہ انتخابات منعقد ہوں گے ۔ الیکشن کمیشن نے راجیہ سبھا کے انتخابات کیلئے شیڈول جاری کردیا ہے ۔ 21جنوری سے پرچہ نامزدگیاں قبول کی جائے گی ۔ 28جنوری پرچہ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ ہوگی ‘29جنوری کو تنقیح ہوگی‘31جنوری تک پرچہ نامزدگی سے دستبرداری اختیار کی جاسکتی ہے ۔ ضرورت پڑنے پر 7فبروری کو رائے دہی ہوگی ۔ پورے ملک سے جملہ 55ارکان کی میعاد مکمل ہورہی ہے جن میں کانگریس کے 17ارکان شامل ہیں ۔ آندھراپردیش سے 5ارکان مسٹر ایم اے خان ‘ ڈاکٹر کے وی رامچندر راؤ ‘ مسٹر نندی ایلیا ‘ مسٹر ٹی سبی رام ریڈی ‘ مسز رتنا بائی تمام کانگریس ۔
تلگودیشم کے ہری کرشنا کی میعاد ختم ہورہی ہے ۔ تاہم انہوں نے پہلے ہی استعفی دے دیا اور وہ منظور بھی ہوگیا ہے ۔ اس طرح ریاست سے راجیہ سبھا کیلئے 6نشستیں مخلوعہ ہورہی ہیں ۔ کانگریس پارٹی نے مسٹر ٹی سبی رام ریڈی اور مسٹر نندی ایلیا کو دو دو مرتبہ راجیہ سبھا کا رکن منتخب کیا ہے ۔ مسٹر ٹی سبی رام ریڈی اس مرتبہ لوک سبھا کیلئے مقابلہ کرنے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں ۔ ریاست سے راجیہ سبھا میں حاضری ‘ مباحث اور سوال جواب کرنے کے زمرے میں مسٹر ایم اے خان سرفہرست ہیں جنکی حاضری 98 فیصد ہے ۔ 28 مباحث میں انہوں نے حصہ لیا اور 921سوالات جواب میں شامل رہے ۔ دوسرے نمبر پر مسز رتنا بائی ہے جن کی حاضری بھی 98فیصد ہے تاہم انہوں نے 14مباحث میں حصہ لیا اور 916 سوال جواب کے سیشن میں شامل رہی ۔ اس کے بعد نندی ایلیا ‘ ڈاکٹر کے وی پی رامچندر راؤ اور سبی رام ریڈی کا نمبر آتا ہے ۔ سارے ملک میں کانگریس سے دو مسلم ارکان مسٹر ایم اے خان ( آندھراپردیش) ‘
مسٹر حسین دہلوی ( مہاراشٹرا) کی میعاد مکمل ہورہی ہے ۔ دو سال قبل ریاست سے دو مسلم ارکان راجیہ سبھا ایک کانگریس اور دوسرے سی پی آئی کی میعاد مکمل ہوئی تھی تاہم کانگریس نے کسی بھی مسلم امیدوار کا انتخاب نہیں کیا جس سے مسلمانوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ اس مرتبہ کانگریس کی جانب سے مسٹر ایم اے خان کو دوبارہ امیدوار بنائے جانے کا قوی امکان ہے ۔ تلنگانہ کے مسئلہ پر انہوں نے پہلے ہی سونیا گاندھی اور پارٹی کے ہائی کمان کے ہر فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا