حکومت کی تائید سے زائد حلقوں پر کامیابی کے منصوبوں کو دھکا ۔ رکن اسمبلی کے خلاف پروپگنڈہ بھی بے اثر ۔ در پردہ مفاہمتوں کا بھی امکان
حیدرآباد ۔26۔ ڈسمبر (سیاست نیوز) پرانے شہر میں مقامی سیاسی جماعت کے توسیعی منصوبہ کو اس وقت دھکا لگا جب حلقہ اسمبلی راجندر نگر میں بڑی تعداد میں کیڈر نے ساتھ چھوڑ دیا اور برسر اقتدار پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ مقامی جماعت 2019 میں اپنی نشستوں میں اضافہ کا منصوبہ بنارہی ہے اور اس سلسلہ میں وہ حکومت کی تائید حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ سے زائد نشستوں پر مفاہمت کے سلسلہ میں اگرچہ ابھی تک رسمی طور پر بات چیت نہیں ہوئی۔ تاہم مجلس کی نظر 7 اسمبلی حلقوں کے علاوہ راجندر نگر اسمبلی حلقہ پر ہے، جہاں سے 2014 ء انتخابات میں پرکاش گوڑ نے تلگو دیشم کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی، بعد میں ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق چیف منسٹر اپنی موجودہ نشستوں میں کمی کیلئے تیار نہیں ہیں اور وہ ایسے اسمبلی حلقوں کی پیشکش کرسکتے ہیں جہاں فی الوقت ٹی آر ایس کا رکن اسمبلی نہیں ہے ۔ اگر اس طرح کے حلقے تلاش کئے جائیں تو ان میں مقامی جماعت کی کامیابی کے امکانات موہوم ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پرکاش گوڑ کی عوامی خدمات اور ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پارٹی 2019 ء میں انہیں ٹکٹ سے محروم کرنے تیار نہیں۔ راجندر اسمبلی حلقہ میں شاستری پورم ، عطا پور اور بعض دوسرے علاقوں میں مقامی جماعت کا خاصا اثر ہے لیکن پرکاش گوڑ نے ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے مقامی جماعت کے کیڈر کو راغب کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ حالیہ عرصہ میں مجلس کے کئی اہم قائدین اور کارکنوں نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی، انہیں پارٹی قیادت اور مقامی قائدین کے رویہ سے شکایت ہے۔ 2014 ء میں مجلس نے اس حلقہ سے مقابلہ کیا تھا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ گزشتہ تین برسوں میں اس حلقہ میں مقامی جماعت کے کیڈر کو اسلئے بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ نہ صرف قیادت بلکہ شکست خوردہ امیدوار نے بھی حلقہ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ مقامی جماعت و ٹی آر ایس کیڈر میں مختلف مواقع پر ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوئی لیکن قیادت نے اپنے کارکنوں کو نظرانداز کردیا جسکے نتیجہ میں کئی قائدین دلبرداشتہ ہوکر ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔ مقامی افراد کا کہناہے کہ رکن اسمبلی پرکاش گوڑ عوامی مسائل کی یکسوئی کے سلسلہ میں سنجیدگی سے اقدامات کر رہے ہیں اور مقامی جماعت کا پروپگنڈہ ان کی کامیابی میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ راجندر نگر حلقہ کیلئے جاری ٹکراؤ کے دوران صدر مجلس نے سائبر آباد پولیس کو نشانہ بنایا ۔ حال ہی میں پارٹی کے اجلاس میں انہوں نے پولیس پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ پولیس نے قیادت کے اس الزام کو محض ایک ناٹک قرار دیا اور کہا کہ کسی بھی معاملہ میں غیر جانبداری کے ساتھ کارروائی کی جارہی ہے ۔ جب کبھی مجلسی کیڈر اور رکن اسمبلی پرکاش گوڑ کے حامیوں میں تنازعہ پیدا ہوا ، پولیس نے غیر جانبداری سے کارروائی کی۔ راجندر نگر حلقہ میں جس تیزی کے ساتھ مقامی جماعت کی بنیادیں کمزور ہورہی ہیں آئندہ انتخابات میں اس حلقہ سے مقابلہ کرنا دشوار کن دکھائی دے رہا ہے۔ اگر چیف منسٹر اس حلقہ پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں تو ہوسکتا ہے کہ مقامی جماعت راجندر نگر حلقہ سے مقابلہ نہ کرے۔ کہا جا رہا ہے کہ ٹی آر ایس نے شہر اور مضافاتی علاقوں کے اسمبلی حلقہ جات میں موقف مستحکم کرنے کیڈر کو ابھی سے متحرک کردیا ہے۔ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں کسی بھی ایسے حلقہ پر حلیف جماعت سے مفاہمت نہیں کی جائے گی جہاں پارٹی کا موقف مستحکم ہو۔ ان حالات میں مقامی جماعت کیلئے شہر میں بی جے پی کے پانچ اسمبلی حلقے رہ جائیں گے جہاں وہ ٹی آر ایس سے خفیہ مفاہمت کے ذریعہ مقابلہ کی تیاری کرسکتی ہے۔ ٹی آر ایس کے سروے کے مطابق 2019 ء میں بی جے پی کو اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوگی ۔ اگر اس سروے پر اعتبار کرتے ہوئے مقامی جماعت بی جے پی حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہے تو اس کیلئے ٹی آر ایس کی تائید کے دم پر کامیابی کا حصول آسان نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مقامی جماعت گوشہ محل ، عنبر پیٹ اور خیریت آباد جیسے حلقوں میں کامیابی حاصل کرنے کے موقف میں ہے؟ جہاں تک سیاسی مفاہمت کا سوال ہے مقامی جماعت کا ریکارڈ رہا ہے کہ اس نے ضرورت پڑنے پر بی جے پی سے بھی خفیہ مفاہمت کی تاکہ اپنے حلقوں میں بی جے پی کو کمزور امیدوار کھڑا کرنے کیلئے راضی کیا جاسکے۔