راجناتھ سنگھ کی مساعی

جو اسے راحت رسانی کے ہمیشہ تھے خلاف
اقلیت کے ٹھیکہ داروں سے وہ ملنے آگئے
راجناتھ سنگھ کی مساعی
بی جے پی کے صدر راجناتھ سنگھ کی لکھنؤ میں چند مسلم قائدین اور علماء سے ملاقات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔ انتخابات کے موقع پر ہر پارٹی ملک کے مسلمانوں کو قریب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ راجناتھ سنگھ بھی اپنی پارٹی اور خود لکھنؤ حلقہ سے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے چند مخصوص مسلم قائدین اور علما سے ملاقات کرکے اس کی تشہیر کرتے ہیں تو یہ انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہر پارٹی کو خاص کر بی جے پی کو بھی یہ احساس ہے کہ مرکز میں اقتدار کے حصول کے لئے مسلمانوں کا ووٹ لازمی ہے۔ مسلمان ایک بادشاہ گر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک ان کی بادشاہ گری کی وجہ سے کانگریس نے ملک پر راج کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود یہ بادشاہ گر قوم اپنے لئے کچھ حاصل نہیں کرسکی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ہر انتخابات کے وقت ہندوستان کے سیکولر کردار پر چلنے کی ہر کوئی کوشش کرتا ہے۔ بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے بھی خود کو اپنی پارٹی کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش شروع کی ہے لیکن یہ سبھی جانتے ہیں کہ آر ایس ایس کی پاٹھ شالہ میں سیکولر نام کا کوئی لفظ ہی نہیں پڑھایا جاتا تو اس کے پرچارکوں کو سیکولر کا معنی و مفہوم کیسے معلوم ہوگا۔ سیاسی مجبوری یا سیاسی لالچ ان میں سے کسی ایک کی خاطر بی جے پی قائدین کو بھی سیکولرازم کا نقاب اوڑھتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ بی جے پی صدر نے اب تک ایسا کوئی موافق مسلم مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی بیان دیا جس کی بناء اقلیتوں کو محسوس ہوسکے کہ ہاں بی جے پی نے سیکولرازم کا پرچم تھاما ہے۔ یہ تو انتخابات کے مرحلہ میں بی جے پی کو مسلم طبقہ کی یاد آئی ہے تو اسے صرف ایک وقتی موقع پرستی کا نام دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے یا پھر اس کے پس پردہ باریک اور نازک پالیسیوں کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ مودی نے اب تک اپنے انتخابی جلسوں میں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے بارے میں کوئی اظہارخیال نہیں کیا ہے وہ صرف سطحی اور گول مول بات کرکے خود کو ایک سیدھا سادھا اور حب الوطن لیڈر بلکہ ہندوستان کا چوکیدار ہونے کی آرزوؤں کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ حکمراں پارٹی کانگریس کے سامنے سب سے بڑی اپوزیشن بی جے پی کی انتخابی مہم کی قیادت کرتے ہوئے نریندر مودی نے ایک ریاست سے نکل کر سارے ملک کی ریاستوں کے عوام کے دلوں و دماغوں پر چھاجانے کا موقع پرستانہ قدم اٹھایا ہے۔ صرف 5 ریاستوں تک سمٹی ہوئی بی جے پی کو یہ یقین ہیکہ وہ مودی کے سہارے اقتدار تک پہنچ جائے گی لیکن اب بی جے پی کے مسلم قائدین اور علماء کی جانب جھکاؤ سے یہ واضح ہورہا ہیکہ بی جے پی کو حکومت بنانے کیلئے مطلوب تعداد حاصل نہیں ہورہی ہے۔ مودی کی لہر کے روش پر اڑنے والی بی جے پی کو مسلمانوں کی یاد آنا اسبات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ انتخابات میں بی جے پی خاص ووٹوں سے محروم ہورہی ہے۔ اس کو خاطرخواہ حمایت حاصل نہیں ہے۔ مودی کو لیکر بی جے پی نے جس زعم سے انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا واقعی یہ جوش و خروش ایک ’’غبارہ‘‘ کی طرح پھٹ جائے گا تو بہت بڑی سبکی محسوس ہوگی۔ مودی اور ان کی ٹیم نے عوام تک پہنچنے کیلئے کوئی ذریعہ ضائع ہونے نہیں دیا ہے۔ انٹرنیٹ، فیس بک، سوشیل میڈیا کے دیگر وسائل سے لیکر ٹی وی، ریڈیو، اسٹیج، گلی، نکڑ اور روڈ شوز غرض ہر جگہ مہم چلا کر بھی مودی کو اقتدار نہیں ملے گا تو بہت صدمہ ہوگا۔ داخلی طور پر کروائے گئے ہندو ووٹوں کے سروے سے یہ اشارے مل چکے ہیں کہ مودی کے غیر سیکولر کردار کی وجہ سے سیکولر ہندوستان کا سیکولر رائے دہندہ بی جے پی سے نالاں یا ناراض ہے۔ بی جے پی کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے میں کانگریس اور اس کے قائدین بری طرح ناکام ہورہے ہیں۔ اس کے باوجود سیکولر رائے دہندہ ازخود یہ محسوس کررہا ہیکہ ’’مودی کی سرکار‘‘ ہوگی تو ہندوستان کی ترقی اور روزگار کے مسائل مزید بھنور میں پھنس جائیں گے۔ ہندوستان بھر کے عوام کو اس بات کا ڈر ہیکہ مودی نے گجرات میں جو کچھ کیا ہے اس کا اعادہ ہندوستان بھر میں ہوسکتا ہے۔ مودی کے ذہن اور نیت کے تعلق سے کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ ملک کے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہونے کے بعد ملک کے ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کریں گے۔ مودی نے اپنے اطراف بعض ایسی تلخ سچائیوں کی دیواریں کھڑی کرلی ہیں کہ ان پر کوئی بھی ہوشمند شہری بھروسہ نہیں کرسکتا۔ پھر 1.30 بلین نفوس پر مشتمل ہندوستانی آبادی کا 14 فیصد حصہ مسلم طبقہ مودی پر کس طرح بھروسہ کرسکے گا۔ صدر بی جے پی راجناتھ سنگھ نے مسلم علماء سے ملاقات پر اپنی پارٹی کی خاص پالیسیوں اور مسلم طبقہ کے بارے میں ان کی پارٹی کے ٹھوس دیانتدارانہ منصوبوں کے بارے میں کوئی اظہارخیال نہیں کیا تو پھر اس ملاقات کو صرف انتخابی مہم کا حصہ سمجھا جانا چاہئے کیونکہ سیکولر ملک میں جمہوری طرز کے انتخابات کا حسن یہی ہیکہ ہر لیڈر ہر رائے دہندہ تک پہنچنے کا حق رکھتا ہے۔ جواب میں ہر رائے دہندہ کو حق حاصل ہیکہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دے۔