راجستھان ضمنی انتخابی نتائج

راجستھان ضمنی انتخابی نتائج
راجستھان میں ضمنی انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کیلئے پریشان کن صورتحال پیدا کردی ہے ۔ یہاں لوک سبھا کی دو اورا سمبلی کی ایک نشست کیلئے ہوئے ضمنی انتخابات میں کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کرلی ہے اور بی جے پی اپنی ایک بھی نشست بچانے میں کامیاب نہیںہوسکی ہے ۔یہ صورتحال ریاست میں وسندھرا راجے سندھیا کی قیادت والی حکومت کیلئے پریشان کن ہی ہے کیونکہ ریاست میںجاریہ سال کے اواخر ہی میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشے بھی بے بنیاد نہیں کہے جاسکتے کہ نریندر مودی اورامیت شاہ کی جوڑی اسمبلی انتخابات میںشکست سے بچنے کیلئے لوک سبھا کے انتخابات بھی ساتھ ہی کرنے کے تعلق سے غور و فکر شروع کردیں۔ ویسے بھی یہ اشارے دئے جا رہے ہیں کہ بی جے پی کانگریس کو سنبھلنے اورا پنے موقف کو مزید مستحکم کرنے کا موقع فراہم کئے بغیر قبل از وقت لوک سبھا کے انتخابات کرواسکتی ہے ۔ اس کی کوشش یہی ہوگی کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی ہندی پٹی کی ریاستوں میں کانگریس کو سنبھلنے کا موقع نہ ملنے پائے ۔ اگر ان ریاستوں میں کانگریس کا موقف مستحکم ہوجاتا ہے تو پھر سارے ملک میں کانگریس کیلئے حالات میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے اور یہی بات بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی اور امیت شاہ کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ جس طرح سے امیت شاہ اور مودی کی جوڑی ملک کو کانگریس سے پاک کرنے کا نعرہ دے کر کام کر رہے ہیں وہ نعرہ دھرے کا دھرا رہ سکتا ہے اور کانگریس اگر دوبارہ اپنے آپ کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خود بی جے پی میں اس جوڑی کے خلاف آواز بلند ہوسکتی ہے ۔ اب جبکہ ان دونوںکو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے ایسے میں مخالفانہ آوازیں دبی ہوئی ہیں۔ حالانکہ یشونت سنہا اور شتروگھن سنہا وقفہ وقفہ سے حکومت کو چٹکیاں کاٹ رہے ہیں لیکن جو مخالفانہ بلکہ باغیانہ صدائیںہیں وہ بالکل خاموش ہیں ۔ کانگریس مستحکم ہوتی ہے اور بی جے پی کو انتخابی نقصانات ہوتے ہیں تو یہ صدائیں طاقتور ہوسکتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی پارٹی میں مخالفت کو روکنے مودی ۔ شاہ کی جوڑی کو کانگریس کو روکنا ضروری ہے ۔
راجستھان میں 2014 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس پارٹی کو ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں ملی تھی اور بی جے پی نے تمام 25 نشستوں پر قبضہ جمالیا تھا ۔ لیکن اب چار سال بعد ہوئے ضمنی انتخاب میں کانگریس نے جو واپسی کی ہے وہ بہت شاندار کہی جاسکتی ہے ۔ اس سے قبل راجستھان میں مجالس مقامی کے انتخابات ہوئے تھے اس میں بھی کانگریس نے بہترین کارکردگی دکھائی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ میڈیا میں اس کی تشہیر مناسب انداز میں نہیں کی گئی تھی ۔ اب بھی لوک سبھا اورا سمبلی ِضمنی انتخاب کی کامیابیوں کی وہ تشہیر نہیں ہوسکی جتنی ہونی چاہئے تھی ۔ اس کی ایک وجہ تو بجٹ ہے اوریہ معقول وجہ ہے ۔ دوسری وجہ میڈیا کی جانبداری ہے جو ہر وقت میں مخالف بی جے پی جماعتوں کو نظر انداز کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔ راجستھان میںجو نتائج آئے ہیں وہ وسندھرا راجے سندھیا حکومت کیلئے الٹی گنتی بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ نوجوان لیڈر سچن پائلٹ کی قیادت میں اور سابق چیف منسٹر اشوک گہلوٹ کی رہنمائی میں پردیش کانگریس کی جانب سے بہترین مہم چلائی گئی تھی اورا س کے اثرات اگر دور رس ہوتے ہیں تو راجے حکومت کیلئے مسائل لازمی ہیں۔ خود بی جے پی کی صفوں میں کل کے نتائج پر مایوسی سے زیادہ بے یقینی کی کیفیت دیکھنے میں آئی ۔ پارٹی کے کئی گوشے ایسے تھے جو اس طرح کے نتائج کی توقع نہیں کررہے تھے اور انہیں مودی کے جادو کا اثر اتنی جلدی ختم ہونے کی امید قطعی نہیں تھی ۔
راجستھان میںبی جے پی کی کراری شکست اس لئے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں پارٹی کی جانب سے فرقہ پرستی اور ذات پات کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ راجستھان کے الوار ہی میں گائے کے نام پر مسلمانوںکو قتل کیا گیا تھا ۔ قاتل اب بھی آزاد ہیں۔ گائے کے نام پر دلت نوجوانوں کو مارپیٹ کی گئی تھی ۔ یہ حملہ آور بھی اب تک قانون کی گرفت سے بچے ہوئے ہیں۔ جس طرح سے فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے حکومت نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اس کو ریاست میں تین حلقوں کے رائے دہندوں نے بری طرح مسترد کردیا ہے ۔ جو دو لوک سبھا حلقے اور ایک اسمبلی حلقہ تھا ان میں جملہ 17 اسمبلی حلقوں کا احاطہ ہوا تھا اور ہر حلقہ میں کانگریس ہی کو سبقت حاصل ہوئی ہے ۔ اس طرح اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس کیلئے انتہائی مثبت اشارے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریس اسی طرح اور مزید زیادہ تال میل اور منظم طریقہ سے کام کیا جائے تاکہ ریاست میں بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کیا جاسکے ۔