رات میں آرام اور دن میں معاش کی تلاش

مولانا غلام رسول سعیدی
رات اور دن کا توارد اور اختلاف سورج کی حرکات سے وجود میں آتا ہے۔ سورج کی حرکت سے زمین کا جو حصہ اس کے بالمقابل ہو وہاں دن ہوتا ہے اور جب سورج حرکت طے کرتا ہوا زمین کے اس حصہ سے غروب ہو جاتا ہے تو اس حصہ میں رات ہو جاتی ہے اور اس وقت سورج کرۂ ارض کے دوسرے حصہ کے بالمقابل طلوع ہوکر وہاں دن کی رونقیں لے آتا ہے اور اسی طرح پیہم اور لگاتار کرۂ ارض کے ہر حصہ میں سورج کے طلوع اور غروب سے دن اور رات کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ لیکن یہ سوال یہ ہے کہ سورج کو کون حرکت دے رہا ہے؟ اور زحل، مشتری، مریخ اور دیگر کواکب سیارہ میں سے دن اور رات کا سلسلہ قائم کرنے کے لئے صرف سورج کی تخصیص کس نے کی ہے؟ کسی اور سیارہ سے یہ کام کیوں نہیں لیا گیا؟۔

کیا سورج کی حرکت، روشنی اور توانائی کا یہ سلسلہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے؟۔ اگر ایسا ہے تو اس میں ضبط، تسلسل اور دوام کیوں ہے؟ اور اگر سورج از خود یہ عمل کرتا ہے تو اس جیسے دیگر سیارگان جو فی نفسہٖ جسم ہونے اور متحرک رہنے میں اس جیسے ہیں، وہ یہ عمل کیوں نہیں کرتے؟۔ پھر سورج میں روشنی، توانائی اور ایک خاص محور پر متواتر گردش کا نظام کس نے بنایا ہے؟۔ پھر یہ کس کی حکمت ہے، جس نے سورج کو زمین سے ایک خاص اور مناسب فاصلہ پر ایسے مدار میں رکھا ہے کہ اگر وہ اس فاصلہ سے کسی قدر اونچا ہو تو یہ کائنات ارضی سخت ٹھنڈک سے منجمد ہو جائے اور اگر وہ اس فاصلہ سے سو میل ہی نیچے اتر آئے تو یہ تمام کائنات ارضی جل کر بھسم ہو جائے۔ سوچئے کہ سورج کا زمین سے یہ مناسب فاصلہ، ایک خاص محور پر مقررہ نظام کے تحت اس کی گردش، اس کی روشنی اور توانائی یہ کس کی قدرت اور حکمت کا کارنامہ ہے؟۔ کیا عقل کا اندھا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ پتھر کی بے جان مورتیوں، توہماتی دیوتاؤں یا انسانوں کا کام ہے، جو ہزاروں سال سے اسی نظام شمسی کے تحت پیدا ہوتے ہیں اور اپنا نام و نشان چھوڑے بغیر مٹ جاتے ہیں؟۔ لہذا یہ لوگ اگر عقل و خرد سے بالکل بیگانہ نہیں ہو گئے تو انھیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ سورج کی تخلیق اس اعلی ہستی کا کارنامہ ہے، جو ازلی، ابدی، واجب، قدیم، قادر اور حکیم ہے، جس کے حکم سے ایک سورج ہی نہیں، بلکہ تمام سیارگان اپنے مقرر کردہ دائرۂ عمل میں گردش کر رہے ہیں،

بلکہ کائنات کا ہر ذرہ اس کے حکم کے تابع اور اس کے بنائے ہوئے نظام کے تحت اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے۔
فرمان باری تعالی ہے ’’سورج اپنے مرکز کے گرد گردش کرتا رہتا ہے اور اس کی یہ گردش اس زبردست حکیم کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ہے‘‘ (سورہ یٰسٓ۔۳۸) سورج کی حرکات سے محض دن اور رات کا وجود ہی عمل میں نہیں آتا، بلکہ دن اور رات کا اختلاف بھی وجود میں آتا ہے۔ گرمی، سردی، بہار اور خزاں، یہ تمام موسم دن اور رات کے اختلاف سے روپزیر ہوتے ہیں اور انسانوں اور حیوانات کی جسمانی نشو و نما اور مختلف فصلوں، پھلوں اور پھولوں کی پیداوار اورافزائش کے لئے موسم کا اختلاف بے حد ضروری ہے۔ اگر موسموں کا یہ حکیمانہ اختلاف نہ ہوتا تو نہ زمین پر فصل اگتی اور نہ باغوں میں پھول مہکتے۔ یہ موسی اختلاف صرف نباتات کی بقاء کے لئے ہی نہیں، بلکہ انسان کی بقاء کے لئے بھی ضروری ہے۔

یہ کس قدر زبردست حکمت ہے کہ موسموں کا یہ اختلاف اچانک اور فوراً نہیں ہوتا، بلکہ تدریجاً سردی کم ہوتی جاتی ہے اور گرمی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر دسمبر اور جنوری کی سخت سردی کے بعد اچانک مئی، جون کی گرمی آجاتی تو اس اچانک تبدیلی سے انسان کے اعصاب پر کس قدر گہرا اثر ڑتا اور مشکل سے ہی کوئی ذی نفس زندہ رہ سکتا۔ وہ حکیم مطلق درجہ بہ درجہ سردی اور گرمی کے موسم لاتا ہے، تاکہ انسان ایک موسمی ماحول سے نکل کر دوسرے موسمی ماحول میں آنے کے لئے بالکل تیار ہوجائے۔

رات اور دن میں مکمل تضاد ہے اور دو متضاد چیزیں ہمیشہ فساد کا موجب ہوتی ہیں، لیکن قدرت نے رات اور دن کے خوبصورت اور حسین تضاد میں مصالح اور منافع کی تحصیل کے لئے مکمل معاونت رکھی ہے۔ دن بنایا، تاکہ اس میں انسان ہو یا حیوان، وہ اپنی معیشت کا سامان حاصل کرسکے۔ رات پیدا کی، تاکہ دن بھر کا تھکا ماندہ انسان ہو یا حیوان، وہ رات کی آغوش میں اپنے تھکے ہوئے اعصاب کو آرام پہنچا سکے اور رات میں اس کو ایسی میٹھی اور گہری نیند عطا کی، جس کے سبب اس کا تھا ہوا ذہن سکون حاصل کرسکے۔ معلوم ہوا کہ دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن اور پھر ان میں کمی و زیادتی کا تناسب اور تدریجاً اختلاف کسی ازلی اور ابدی قادر اور حکیم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
٭٭٭