رات دیر گئے تقاریب کو روکنے پولیس کا قانون نفاذ پر غور، جامعہ نظامیہ سے فتویٰ کا حصول

غیر ضروری خرافات پر پولیس کے اقدامات شرعی مداخلت نہیں، مفتی عظیم الدین صدر مفتی جامعہ نظامیہ کا پولیس کو جواب
حیدرآباد 29 نومبر (سیاست نیوز) نکاح تقاریب میں ہونے والی خرافات کو روکنے کے لئے محکمہ پولیس کو جنوبی ہند کی عظیم اسلامی درسگاہ جامعہ نظامیہ کی جانب سے اجازت دیئے جانے کے بعد مختلف گوشوں سے اس اقدام کی سراہنا کی جانے لگی ہے اور محکمہ پولیس کی جانب سے اب رات دیر گئے تقاریب کے انعقاد کو روکنے کے لئے قانون نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی بلکہ علماء کی تائید کے بعد پولیس کی جانب سے نکاح میں انجام دی جانے والی خرافات کو روکنے کے کھل کر اقدامات کئے جائیں گے۔ مولانا مفتی عظیم الدین صدر مفتی جامعہ نظامیہ سے ساؤتھ زون پولیس نے چند سوالات بالخصوص وقت کی پابندی، نکاح تقاریب میں رقص و موسیقی، آتشبازی و سامع نوازی کے علاوہ چند اُمور پر جواب طلب کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ آیا اگر پولیس کی جانب سے سامع نوازی، رقص و موسیقی، آتشبازی پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ وقت کی پابندی کے لئے سخت اقدامات کرتی ہے تو ایسی صورت میں کیا یہ شریعت میں مداخلت ہوگی؟ ان سوالات کا حضرت مولانا مفتی عظیم الدین نے تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہاکہ وقت کی پابندی اسلام میں ضروری قرار دی گئی ہے اور دیگر جن لغویات و خرافات کا تذکرہ کیا گیا ہے جیسے سامع نوازی، آتشبازی، رقص و موسیقی تو اسلام میں حرام ہیں اسی لئے ان کاموں کو روکنے اگر پولیس سخت اقدامات کرتی ہے تو ایسی صورت میں شرعی مداخلت تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس فتویٰ کے حصول کے بعد اب پولیس کی جانب سے یہ منصوبہ تیار کیا جارہا ہے کہ اس کے سختی سے نفاذ کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلہ میں پولیس ساؤتھ زون کی جانب سے ڈپٹی کمشنر پولیس مسٹر وی ستیہ نارائنا، مسٹر کے بابو راؤ ایڈیشنل ڈی سی پی کے علاوہ دیگر عہدیدار شادی خانوں کے مالکین سے مشاورت کے علاوہ عوام میں شعور بیداری کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ صدر مفتی جامعہ نظامیہ مولانا مفتی عظیم الدین صاحب سے اجازت کے حصول کے بعد پولیس کے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے اور پولیس کی جانب سے اس فتویٰ کے نفاذ کو یقینی بنانے میں ہر طرف سے تعاون کی پیشکش وصول ہونے لگی ہے۔ جامعہ نظامیہ کے اس فتوے اور پولیس کے اقدام پر مولانا محمد حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ اس اقدام کی سراہنا کی جانی چاہئے۔ انھوں نے فتوے کی مکمل تائید کرتے ہوئے کہاکہ اگر قاضی حضرات بھی سخت گیر موقف اختیار کریں اور خرافات جس تقریب میں ہوں نکاح نہ پڑھانے کا اعلان کریں تو یقینا حالات بدل سکتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اسراف اور تاخیر تک نکاح تقاریب کا انعقاد سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ مولانا جعفر پاشاہ نے بتایا کہ نکاح تقریب تو درحقیقت ہوتی صرف آدھی گھنٹے کی ہے لیکن ضیافت رات دیر گئے تک جاری رہتی ہے جو نہ صرف شرکاء بلکہ داعی کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ مولانا نے اس تحریک کا خیرمقدم کرنے اور عوام میں شعور اُجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ علاوہ ازیں دیگر گوشوں کی جانب سے بھی یہ کہا جارہا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جلد سونے کی ترغیب دی ہے تو ایسی صورت میں رات دیر گئے تقاریب کے انعقاد کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جناب محمدعبدالملتزم ذمہ دار سٹی کنونشن سنٹر نے بتایا کہ اگر وقت کی پابندی کو یقینی بنایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں ہر کسی کو فائدہ ہوگا۔ چونکہ رات دیر گئے تقاریب کا انعقاد نہ صرف داعی بلکہ شرکاء محفل اور خود شادی خانہ کے ذمہ داروں اور ملازمین کے لئے تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وقت کی پابندی کا نہ ہونا مہمان کے لئے تکلیف کا سبب تو بن ہی رہا ہے ساتھ ہی ساتھ محفل سے متعلق تمام افراد پر اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اگر تقریب وقت پر شروع ہو اور وقت پر ختم ہوجائے تو اس سے بہتر کچھ نہیں ہوسکتا۔ جامعہ نظامیہ کی جانب سے جاری کردہ فتوے کو قابل عمل بنانا ضروری ہے اسی لئے شادی خانوں کے ذمہ دار تعاون کرنے تیار ہیں۔ بعض گوشوں کی جانب سے اس بات پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ پولیس کیوں مداخلت کرے، لیکن بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ وقت کی پابندی اور خرافات کے خاتمہ کے لئے ایسا کیا جانا درست ہے اور جہاں تک ممکن ہوسکے ہمیں خود اس طرح کی حرکات سے اجتناب کرنے اور وقت کی پابندی کو یقینی بنانے کے معاملہ میں سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ مولانا مفتی عظیم الدین نے رات دیر گئے تقاریب کے جاری رکھنے کو روکنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ تقاریب کو رات 12 بجے سے یا زیادہ سے زیادہ ایک بجے ختم کردیا جانا چاہئے۔ رات بھر تقاریب جاری رہنے کے سبب صحت متاثر ہونے کے علاوہ عبادت کی بھی کوتاہی کا اندیشہ ہوتا ہے۔