آتش فشاں سینوں میں ہم سب کے سلگتے ہیں
سمجھو نہ سکوں یہ تو طوفان کی آمد سے پہلے کی خوشی ہے
رائے دہندہ کا انتقام !
بی جے پی کے لیڈر امیت شاہ نے ہندو مسلم منافرت پھیلنے کی غرض سے اشتعال انگیز تقاریر کی ہیں۔ عام انتخابات میں ووٹ بنک کو فرقہ وارانہ خطوط میں تقسیم کرنے والی پارٹی کو رائے دہندوں کے انتقام کا مزہ چکھنا پڑے تو وزارت عظمیٰ کی امید کے ساتھ مہم چلانے والے نریندر مودی کے خواب چکناچور ہوں گے۔ ہندوستان کو فرقہ پرستوں سے دور رکھنے کیلئے سیکولر پارٹیوں میں عدم دلچسپی یا ان کی ماقبل رائے دہی حکمت عملیوں کے فقدان کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کی باتیں کرنے والے آخر اتنے سست اور کاہل کیوں ہوگئے۔ آندھراپردیش میں بعض سیاستدانوں کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کو بی جے پی سے اتحاد کا فائدہ ہوتا ہے تو زعفرانی پارٹی مہمان نوازی میں کس حد تک سیاسی کنگال ہوں گے یہ تو ان کے رائے دہندے ہی بتائیں گے۔ قومی سطح پر بی جے پی کا جو حال و احوال ہونے والا ہے اس کی نقش بندی ابھی سے کرلی جائے تو شاید امیت شاہ کی اشتعالی تقریر کے عوض رائے دہندے بھی انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ووٹ کے ذریعہ اپنا فیصلہ سنادیں تو پھر ملک کے سیکولر آسماں پر زعفرانی رنگ پھیلنے میں ناکام ہوگی لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں جہالت اور اس کے نتیجہ میں جذباتیت کی فراوانی ہے۔ ہندو رائے دہندوں کو مذہبی جذبات کے ساتھ اکسانے اور اشتعال دلانے کی سیاست کا راج ہے۔ امیت شاہ نے جس طرح زبان دراز کی ہے اس میں واقعی کوئی شبہ نہیں کہ ہر شر میں ایک خیر بھی چھپا ہوتا ہے۔ بی جے پی کے انتخابی اسٹیج سے پھوٹنے والا شر ملک کے سیکولر رائے دہندہ کی رائے کو مخالف فرقہ پرست ٹولہ کردینے میں دیر نہیں لگے گی۔ اگر ہندوستان کا ووٹر یہ سمجھ لے کہ جس پارٹی کے اندر شر پوشیدہ ہے تو وہ عوام الناس کو ایک پرامن معاشرہ ہرگز نہیں دے سکتی۔ قومی یا علاقائی سطح پر انتقامی سیاست کرنے والی پارٹی اور اس کے قائدین کے علاوہ حلیف پارٹیوں کو اقتدار تک پہنچنے میں کامیابی ملے تو پھر ملک کی داخلی سلامتی خطرے میں ہوگی۔ سرحدوں پر کشیدگی پیدا ہوگی، جس پارٹی کے قائدین داخلی اور خارجی سطح پر اشتعال انگیز نظریہ کو فروغ دے رہے ہیں، پڑوسی ملکوں جیسے پاکستان اور چین کو بھی مشتعل کرسکتے ہیں۔ رائے دہندوں نے اگر اس بات کی قبل از وقت ہی نوٹ لیا تو پھر انہیں ووٹ دیتے وقت صحیح فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ اشتعال انگیزی کی زبان داخلی اور خارجی ہے دونوں سطحوں پر خطرناک ہوتی ہے۔ پاکستان کی دشمنی میں سرحدوں کو غیرمحفوظ کرنے کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کسی لیڈر کا چرب زبان ہونا یا مذہبی یا عقائد کی بنیاد پر بیان بازی کرنا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا لیکن جو قائدین انتقامی جذبہ رکھتے ہیں اور اس جذبہ کیلئے عوام کو اکساتے ہیں تو یہ ایک خطرناک اور نازک مسئلہ ہے۔ جمہوری اور سیکولر ملک کا اصول شہریوں کی مساوات ہے لیکن قومی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کوشش کرنے والوں سے شہریوں کی مساوات کو ہی ختم کرنے کا بیج بویا ہے تو ان سے اچھائی کی امید فضول ثابت ہوگی۔ لہٰذا عام انتخابات کے لئے رائے دہی کا وقت شروع ہوچکا ہے۔ آج سے آئندہ ایک ماہ تک ملک کے عوام کو ایسے امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کا دستوری فریضہ ادا کرنا ہے۔ بی جے پی اور اس کے قائدین نے فرقہ وارانہ نظریہ اور رویوں کو صرف سیکولر مزاج قائدین اور رائے دہندے ہی للکار سکتے ہیں۔ فرقہ پرستی کا سیاہ سانپ پھن لہرا رہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران زہر اگلنے والے قائدین ہوسکتا ہے کہ اپنے مٹھی بھر حامیوں کو خوش کرنے میں کامیاب ہوں لیکن ملک کے سیکولر رائے دہندوں کی اکثریت نے اپنی ناراضگی کا مظاہرہ کرتے ہئوے فرقہ پرستوں سے انتقام لینے کا فیصلہ کرلیا تو مودی اور امیت شاہ کو سیکولر ہندوستان کے اقدار اور بھائی چارہ کی جو مار پڑے گی وہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔ اگر یقین نہ ہو تو مودی اور امیت شاہ اپنی پارٹی کے سینئر قائدین خاص کر اڈوانی سے ہی استفسار کرسکتے ہیں کہ 1980ء میں ان کا سیاسی رعب اور نظریہ کیا تھا اور عوام نے انہیں کیسا سبق سکھایا۔ ہزاروں کوشش کے باوجود اڈوانی وزیراعظم نہیں بن سکے اور واجپائی حکومت نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔ گجرات کا سنگھاسن ہو یا این ڈی اے کا دور اس میں فرقہ پرستی کے افیون والے ماحول میں بی جے پی حامی نوجوانوں کو کوئی کارآمد ہنر سیکھنے کا موقع نہیں ملا اس کی بجائے جگہ جگہ فرقہ پرستی کے زہر کو اگلتے رہے اپنا وقت اور ذہن ضائع کرتے رہے۔ جن صحافیوں کے ہاتھوں میںقلم تھا یا ٹی وی کا مائیک ہر ایک نے فرقہ پرستی کے نظریہ کو عام کیا۔ لہٰذا ملک بیروزگاری کا ایک بڑا پہاڑ بن گیا جن میں فرقہ پرستی کا زہر بھرا ہوا ہے۔ اگر اس زہر اور پہاڑ کو توڑتا اور زائل کرتا ہے تو پھر سیکولر رائے دہندہ کو یقیناً انتقامی جذبہ کے ساتھ فرقہ پرستوں کو روکنے اپنے ووٹ کا درست استعمال کرنا ہوگا جس کے بعد ہی ان کی ماباقی زندگی میں سکون ملک کی سلامتی، روٹی روزی اور ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔