گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات میں سیاسی قائدین میں کردار کا قحط دیکھا گیا ۔ مسلم جماعت کی غنڈہ گردی کی ہر کوئی مذمت کررہا ہے ۔ میونسپل کارپوریشن انتخابات کے مقامی جماعت کی جانب سے اس قدر ہڑبونگ مچانے سے واضح ہوتا ہے کہ اسے اس مرتبہ اپنی ساکھ کو دھکا پہونچنے کااحساس ہوچکا ہے ۔ انتخابات میں ہار جیت کا عنصر برقرار رہتا ہے ۔ سب سے زیادہ شکست یا کامیابی کی کوشش حکمراں پارٹی ٹی آر ایس نے کی ہے ۔ اس کے امیدواروں نے بھی ضرورت سے زیادہ توقعات قائم کرلئے ہیں ۔ منگل کی صبح 7 بجے سے شام 5 بجے تک ہوئی رائے دہی کے دوران شہر کے 74 لاکھ سے زائد رائے دہندوں کے منجملہ صرف 33,40,741 رائے دہندوں نے اپنے حق ووٹ سے استفادہ کیا ۔ پولنگ 45 فیصد ہوئی جبکہ 2009 ء میں 56 لاکھ رائے دہندوں میں سے 24 لاکھ رائے دہندوں نے ووٹ ڈالا تھا اور پولنگ 42.90 ہوئی تھی ۔ سال 2016 ء کے انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ بلدی انتخابات ہورہے تھے ۔ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس نے 2004 ء میں انتخابات میں شکست کے خوف سے حصہ نہیں لیا تھا لیکن اب اس نے کامیابی کی سب سے بلند سطح کو چھولینے کی کوشش کے ساتھ انتخابی مقابلہ کیا ہے ۔ اس کے حق میں 70 تا 80 ڈیویژنس آ نے کی پیش قیاسی بھی ہورہی ہے ۔ شہر حیدرآباد کا میئر حکمراں پارٹی کا ہو تو یہ ٹی آر ایس کے وقار کیلئے ضروری ہے ورنہ حکمراں پارٹی کو میئر کے عہدہ کیلئے دوسری پارٹیوں سے دست تعاون دراز کرنے کی اپیل کرنی پڑے گی ۔ انتخابات سے عوام کی اکثریت کی بڑی تعداد کی عدم دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں ۔
اول تو الیکشن کمیشن اور بلدی عہدیداروں کی جانب سے بیداری مہم چلانے کے باوجود رائے دہی کا فیصد کم ہونا کئی وجوہات کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے ۔ حیدرآباد کی کئی کالونیوں میں رہنے والوں نے باقاعدہ بلدی انتخابات کا بائیکا ٹ کرنے کا اعلان کیا ۔ اپنے علاقہ کے بلدی مسائل کی یکسوئی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان شہریوں نے متعلقہ حکام اور حکمراں پارٹی کے علاوہ کارپوریٹر بننے کا خواب رکھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ۔ ضلع رنگاریڈی کے کئی ڈیویژنس میں ناقص بلدی انتظامات نے شہریوں کو شدید ناراض کیا ہے جس کی وجہ سے ان شہریوں نے ووٹ ڈالنے کیلئے پولنگ بوتھس پہونچنے کے بجائے سڑکوں پر جمع ہوکر احتجاج کیا ۔ ان کی شکایت کی سماعت کرنے کے بجائے پولیس کا استعمال کرتے ہوئے لاٹھی چارج کروایا گیا ۔ یہ حکومت کی زیادتیوں کا ثبوت ہے ،جو حکومت اپنے قیام کے 20 ماہ کے دوران شہر کی بڑی آبادی کے بنیادی مسائل حل کرنے سے قاصر ہے تو اسے عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے بلدی انتخابات میں ہر علاقہ کے عوام کی شکایات کو دور کرتے ہوئے ان تک پارٹی کارکنوں کو بھیج کر شکایت کی یکسوئی کرلی گئی ہے ۔ لیکن رائے دہی کے دن عوام کے احتجاج اور پولنگ فیصد سے واضح ہوا ہے کہ عوام کی ناراضگی اور شکایات کو دور کرنے کیلئے بنیادی کام انجام نہیں دیئے گئے ۔ اگرچیکہ جی ایچ ایم سی نے 83 فیصد ووٹر سلپس تقسیم کئے تھے اور ہر ایک شہری سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنے حق ووٹ سے استفادہ کریں۔ شہر کی ترقی کیلئے عوام کا تعاون ضروری ہے ۔
حکام کی لاپرواہی اور کوتاہی کی عادت جب برقرار رہتی ہے تو مسائل جوں کا توں رہتے ہیں ۔ ہر انتخابات کے وقت سب سے بڑا مسئلہ ووٹر لسٹ کا ہوتا ہے ۔اس مرتبہ بھی کئی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے نام حذف پائے گئے ۔ کئی ڈیویژن میں اہلیت رکھنے والے رائے دہندوں کے نام ووٹر لسٹ سے غائب تھے ۔ اس طرح کی کوتاہیوں کا الزام بلدی نظم و نسق پر ہی عائد ہوتا ہے ۔ ہر وقت ووٹر لسٹ سے ناموں کو حذف کردیا جانا معنی خیز اور حیران کن بات ہے ۔ ایسی لاپرواہی کا سخت نوٹ لیا جانا ضروری ہے ۔بلدی انتخابات سے عوام کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ برسوں تک عوام کی بنیادی ضرورتوں کی جانب توجہ نہیں دی جاتی ۔ جس بلدیہ کو عوام سالانہ کرؤڑہا روپئے کا ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کا بلدیہ کے پاس کوئی حساب کتاب بھی نہیں ہوتا ۔ بلدیہ میں سب سے بڑے پیمانے کی دھاندلی اس کے اکاؤنٹس ہیں۔ بلدی ٹیکس کی وصولی اور اخراجات کا کوئی مناسب ا کاؤنٹنگ سسٹم نہیں ہے ۔ ٹیکس کی شکل میں عوام سے حاصل کی جانے والی رقومات کا جی ایچ ایم سی کی جانب سے تغلب کیا جاتا ہے یا اندھا دھند طریقہ سے اخراجات کی مد میں ڈالا جاتا ہے ۔ جی ایچ ایم سی کے حسابات کی بھی آڈیٹنگ نہیں ہوتی ہے تویہ بھی ایک بڑی کوتاہی اور لاپرواہی ہے ۔ 80 لاکھ نفوس والے اس شہر کی دیکھ بھال کیلئے ایک مقامی ادارہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دیانتدار اور ایماندار عملہ کے بغیر شہر کی ترقی ممکن نہیں اور نہ ہی عوام کو بنیادی سہولتیں میسر ہوں گی ۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ حکمراں ٹی آر ایس پارٹی ان انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ پورا کرلینے کے بعد اپنے دعوؤں کو س طرح روبہ عمل لاتی ہے ۔