ذیابیطس کے علاج میں ’زبردست پیش رفت‘

چوہوں پر کئے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ خلیے ذیابیطس کا علاج کرسکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اسے ’ایک اہم ممکنہ طبی پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔

لبلبے کے اندر موجود بیٹا خلیے انسولین بناتے ہیں جو خون میں شکر کی مقدار کو ایک خاص حد کے اندر رکھتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات جسم کا اپنا دفاعی نظام ان بیٹا خلیوں کے خلاف حرکت میں آ کر انھیں تباہ کر ڈالتا ہے۔اس سے ذیابیطس درجہ اول کی مہلک بیماری جنم لیتی ہے جس کے مریض جسم میں شکر کی مقدار کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔
ذیابیطس درجہ دوم ایک اور بیماری ہے جو نسبتاً زیادہ عام ہے اور اس کی بڑی وجہ غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی ہے۔
بعض اوقات جسم کا اپنا دفاعی نظام انسولین بنانے والے خلیوں کو تباہ کر ڈالتا ہے جس سے ذیابیطس کی بیماری جنم لیتی ہے

ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ڈگ میلٹن 23 سال قبل اس وقت اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے کے لئے سرگرم ہو گئے تھے جب ان کے اپنے بیٹے میں اس مرض کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کی ایک بیٹی پیدا ہوئی اور اسے بھی یہی مرض لاحق تھا۔ان کی کوشش ہے کہ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کی مدد سے جسم کے اندر سے تباہ ہونے والے 15 کروڑ بیٹا خلیوں کی تجدید کی جا سکے۔اس مقصد کے لئے انھوں نے کیمیائی اجزا کا ایک ایسا مرکب دریافت کیا جو اسٹیم سیلز کو فعال بیٹا خلیوں میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ذیابیطس درجہ اول میں مبتلا چوہوں پر کئے جانے والے تجربات سے ظاہر ہوا کہ تجربہ گاہ میں تیار کردہ بیٹا خلیے کئی ماہ تک انسولین تیار کر کے خون میں شکر کی مقدار کو مقررہ حد کے اندر رکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر میلٹن نے کہا: ’’یہ جاننا بہت اطمینان بخش ہے کہ ہم وہ کام کر سکتے ہیں جس کے بارے میں ہمارا ہمیشہ سے خیال تھا کہ ایسا ممکن ہے۔اب ہم آخری مرحلے سے صرف ایک پری کلینیکل ٹرائل کی دوری پر ہیں‘‘۔تاہم ان کے بچے کچھ زیادہ متاثر نظر آئے: ’’میرا خیال ہے کہ تمام بچوں کی طرح انھوں نے بھی ہمیشہ کی طرح یہ فرض کر لیا تھا کہ اگر میں نے کہہ دیا کہ میں یہ کروں گا تو واقعی کر گزروں گا‘‘۔

سارا جانسن اس خیراتی ادارے سے تعلق رکھتی ہیں جنھوں نے اس تحقیق کے لئے سرمایہ فراہم کیا تھا۔ انھوں نے بتایا: ’’یہ حتمی علاج نہیں ہے، تاہم یہ اس راستے پر ایک اہم قدم اور زبردست پیش رفت ہے‘‘۔
پروفیسر کرس میسن یونیورسٹی کالج لنڈن میں اسٹیم سیلز پر تحقیق کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’’یہ ممکنہ طور پر ایک اہم سائنسی پیش رفت ہے کیوں کہ اس میں بڑے پیمانے پر فعال خلیے تیار کیے گئے ہیں جو ہر قسم کی ذیابیطس کا علاج کر سکتے ہیں۔ اگر یہ ٹیکنالوجی کلینک اور کارخانے دونوں میں کامیابی سے انجام پائے تو اس کا ذیابیطس کی بیماری پر ویسا ہی اثر ہو گا جیسا جراثیم پر اینٹی بائیوٹک کا ہوا تھا‘‘۔
٭٭٭