ذکر امام حسین علیہ السلام کی ضرورت و اہمیت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘۔ (الاحزاب: ۳۳)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا پر مادیت کا غلبہ ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں صرف لوگوں کی عملی اور اخلاقی زندگیاں ہی متاثر نہیں ہورہیں بلکہ لوگوں کے عقائد اور افکار و نظریات تک بھی متاثر ہورہے ہیں۔ جب انسان کے فکر، عقیدہ اور نظریہ میں مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے تو اس عقیدے سے ہر وہ پہلو جس کا تعلق روحانیت اور روحانی اقدار و روایات کے ساتھ ہوتا ہے، وہ پہلو کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ شخص جدیدیت کی سوچ کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ جدیدیت بھی تجدد پسندی کی شکل میں ہوتی ہے جس میں مادیت ،جدیدیت اور لامذہبیت تینوں اکٹھی ہوتی ہیں۔ ان تینوں کا اختلاط ہماری ایمانی زندگی کو متاثر کررہا ہے اور یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔جدیدیت اور ماڈرن ہونے کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اصلاً خرابی نہیں ہے۔ لیکن جب جدیدیت نظریہ اور عقیدہ بن جاتی ہے تو پھر اس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
اسی طرح زندگی کی سیکولر (Secular )ضروریات بھی ہیں، جن کا پورا کرنا بھی اشد ضروری ہے، اس لئے کہ دین سیکولر ضروریات کو نظر انداز نہیں کرتا۔ دین صرف مذہبی پہلو کی تکمیل نہیں کرتا بلکہ دنیاوی پہلو سے بھی مخاطب ہوتا ہے۔ مگر جب سیکولرازم اپنی انتہاء پر چلی جائے تو وہ لامذہبیت میں بدل جاتی ہے، جس سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔
اسی طرح مادیت ہے۔ ہمارا جسم مادہ ہے اور روح کے اوپر ایک غلاف کی مانند ہے۔ روح اور مادہ دونوں کے امتزاج سے انسان بنتا ہے۔ روح سے روحانیت جنم لیتی ہے جبکہ مادہ سے مادیت جنم لیتی ہے۔ اصلاً مادیت بھی بری چیز نہیں مگر مادیت جب فکر، فلسفہ، نظریہ اور عقیدہ بنتی ہے یعنی ہمارے افکار اور عقیدے پر اثر انداز ہوتی ہے تو پھر یہ بھی فتنہ بن جاتی ہے۔
جس سوچ، عقیدے اور نظریہ میں جس بھی دور میں یہ تینوں چیزیں ’’جدیدیت، لامذہبیت اور مادیت‘‘ اکٹھی ہوجاتی ہیں تو وہاں اعتقادی، اخلاقی اور ایمانی اعتبار سے بہت بڑا فتنہ وجود میں آتا ہے۔ آج مسلمانوں کی اعتقادی، روحانی، ایمانی، اخلاقی، عملی زندگی اس فتنے سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ مادی ضرورتوں، جدید دور کے جملہ تقاضوں اور غیر مذہبی گوشہ ہائے حیات کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہماری مرکزیت ایمان، روحانیت، قرآن و سنت اور روحانی اقدار پر قائم رہنی چاہئے، اس سے اعتدال قائم ہوتا ہے۔
جس طرح روح اور جسم کے مرکب کو انسان کہتے ہیں، خالی جسم کو بھی انسان نہیں کہتے، فقط روح ہو جسم نہ ہو، تب بھی انسان نہیں کہتے۔اسی طرح روحانی اور مادی (دنیوی) دونوں تقاضے بتمام وکمال اکٹھے ہوں تو دین اور مذہب کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور انسان صحیح ڈگر پر رہتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک تقاضا بھی چھوٹ جائے یا کمزور پڑجائے تو انسان اپنا توازن کھودیتا ہے اور سوچ، فکر، عقیدہ اور عمل میں غیر متوازن ہوجاتا ہے۔اسی لئے اللہ رب العزت نے امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا: ’’ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو ‘‘۔ (البقرة)اگر امت مسلمہ انسانیت کی قیادت کرنا چاہتی ہے تو اسے امت وسط ہونا چاہئے۔ اعتدال پر قائم رہنے والی ایسی امت بننا ہوگا جو اپنا توازن نہ کھوئے۔
مادیت، لامذہبیت اور جدیدیت کے اثرات
مادیت ،لامذہبیت اور جدیدیت اصلاً ان تینوں چیزوں کو میں برا نہیں سمجھتا مگر جب ان تینوں چیزوں کا امتزاج برے طریق سے ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں عقائد میں تغیر آتا ہے اور ایسا ہوتا ہوا ہم گذشتہ کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس موقع پر آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہوں گا اور یہ الفاظ میرے والد گرامی حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ مجھے بطور نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ : ’’بیٹے! گھر، لباس، گاڑی، گھڑی اور ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء جو جو چیز بھی مارکیٹ میں نئی آئے، استفادہ و استعمال کے لئے لے لیں، کسی شے کے نئے ماڈل لینے میں گناہ اور حرج نہیں مگر صرف عقیدہ نیا نہ لینا، عقیدہ وہی رکھنا جو پرانے لوگوں کا تھا‘‘۔ہر نئی شے لینے سے آپ ترقی یافتہ ہوتے چلے جائیں گے، دنیا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے جائیں گے جبکہ عقیدہ پرانا رکھنے سے آپ ایمان پر قائم رہیں گے۔ عقیدہ و ایمان کے حوالے سے جتنی نئی باتیں آپ سنتے ہیں، وہ سب نئے فتنے ہیں۔ روایات میں جو طور طریقے ہماری پچھلی نسلوں میں ائمہ، محدثین اور صلحاء کے تھے، ان کو ترک نہ کریں کیونکہ انہوں نے ان عقائد کو اپنی پہلی نسلوں سے لیا تھا۔ ہر پچھلا دور ہماری نسبت آقا علیہ السلام کے دور کے قریب تھا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: ’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر اُن کا جو ان سے ملے ہوئے ہیں اور پھر اُن کا جو اِن سے ملے ہوئے ہیں‘‘۔ (شرح فتح القدیر)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور اہل بیت کا زمانہ سب سے بہتر ہے۔ پھر وہ زمانہ بہتر جنہوں نے ان (صحابہ و اہل بیت) کو پایا۔ یعنی تابعین، پھر ان لوگوں کا دور جنہوں نے تابعین کو پایا اور وہ تبع تابعین کا دور تھا۔
حدیث کی ظاہری نص کا اطلاق تو صاف ظاہر ہے قرن ثلاثہ (تین زمانوں) عہد صحابہ، عہد تابعین اور عہد تبع تابعین پر ہوتا ہے۔ مگر اس سے ایک اصول نکلتا ہے کہ ان تین زمانوں کو یا آخری تیسرے زمانے کو فضیلت ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جس زمانے کو جتنا قرب زمانہ محمدی ﷺ اور زمانہ نبوت سے تھا وہ زمانہ اتنا افضل ہوگیا۔ اس اصول کا اطلاق جب ہم صدیوں پر کریں گے تو جو صدی آقا علیہ السلام کی صدی سے جتنی قریب تھی وہ پچھلی صدیوں سے اتنی بہتر ہو گی۔
افسوس! آج یہ تصور دیا جاتا ہے کہ ’’پہلے لوگ جاہل تھے، قرآن و سنت کا علم ہمارے پاس ہے۔ لہذا اسلاف کی روش پر نہ چلو‘‘۔ یاد رکھیں! یہی طور طریقے ہمیشہ حق کو رد کرنے والوں کے رہے ہیں۔ دین اور ایمان کے معاملے میں پہلے لوگوں کے پاس وراثت تھی اور وہ وراثت آقا علیہ السلام کی امت میں تسلسل سے چلی آرہی تھی، نتیجتاً امت خیر پر رہی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ میری امت کو من حیث المجموع کبھی گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین)یعنی تسلسل کے ساتھ زمانوں میں میری امت خیر پر برقرار رہے گی گویا خیر کی Legacy اور ایک تسلسل ہے جو صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ لہذا عقیدہ وہی اچھا ہے جو پہلے لوگوں کا تھا۔ جو نئی چیز عقیدے میں داخل کرے اور کہے کہ پچھلے لوگ جاہل تھے، مشرک، بدعتی اور ناواقف تھے، قرآن و سنت کا مکمل علم ان کے پاس نہ تھا، اب ہم محقق ہوگئے ہیں، علم تک ہماری رسائی زیادہ ہے، ہماری بات مانو تو اس موقع پر میں کہوں گا کہ دنیا کے ہر معاملے میں ان کی بات بھلے مانتے پھرو مگر دین اور عقیدے میں ان کی بات نہ مانو۔
دین اور عقیدے میں وہی اچھا ہے جو پرانا تھا۔ دنیا میں وہی اچھا ہے جو نیا ہے جبکہ عقیدہ اور دین میں وہی اچھا جو پرانا تھا۔ سائنس ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میڈیکل الغرض ہر چیز میں بہتری آگے جانے کی طرف ہے جبکہ دین میں آگے جانا گمراہی، فتنوں اور کفر کی طرف جانے کے مترادف ہے۔ دین کی اصل اور بنیاد کے لئے جتنا پیچھے کی طرف جائیں گے، منبع ہدایت حضور نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ، اولیاء اور صالحین کی صدیوں کی طرف بڑھتے جائیں گے۔
یہ تمام بات تمہید یہ سمجھانے کے لئے کی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقائد میں تغیرات آرہے ہیں۔ مثلاً لوگ آج حضور ﷺ کا میلاد منانے پر اعتراض کرتے ہیں اور اسے غیرمتعلقہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ میلاد صدیوں سے پوری امت مسلمہ مناتی آرہی ہے۔ برصغیر ہند و پاک کے لوگوں نے اس کو تخلیق نہیں کیا بلکہ مکہ و مدینہ اور عرب و عجم کے لوگ ہمیشہ سے اس کا انعقاد و اہتمام کرتے آرہے ہیں اور یہ اسلام کی وراثت ہے۔ اسی طرح یہی معاملہ ذکرِ امام حسین علیہ السلام کا ہے۔ اگر ۴۰،۵۰سال پیچھے چلے جائیں تو ہمارے ذہن میں زمانہ ماضی کی یہ چیزیں ابھی تک ثبت ہوں گی کہ کوئی علاقہ، گوشہ، خطہ ایسا نہ تھا کہ جب محرم کے ایام آتے یا شب عاشور آتی تو ہر مسجد، ہر گلی و کوچہ، ہر جگہ ذکرِ امام حسین علیہ السلام کی محافل نہ ہوتی ہوں۔ شہادت امام حسین کے جلسے ہوتے، اہلسنت اپنے عقیدہ و مسلک اور اپنے طور طریقے کے مطابق اور اہل تشیع اپنے عقیدہ و مسلک اور روایت و طریقے کے مطابق ان ایام کو مناتے۔
حُب اہلِ بیت، فتوؤں کی زد میں
اہل تشیع تو بدستور آج بھی اپنی روایت اور اپنے طریقے کے مطابق ان ایام کو مناتے چلے آرہے ہیں۔ مگر بدنصیبی کہ خارجیت، مادیت اور لامذہبیت نے اہلسنت کے عقائد پر گرد ڈال دی۔ جس ذوق و شوق اور رغبت و محبت سے اہل سنت والجماعت کے ہاں کثرت سے ذکر حسین علیہ السلام کا اہتمام ہوتا تھا، اجتماع ہوتے تھے اب وہ جوش و خروش، تسلسل اور کثرت نہیں رہی۔ بدقسمتی سے پچھلے ۲۰،۳۰سال کے اندر اس چیز کو فروغ دیا گیا کہ جو ماہ محرم میں یا شب عاشور کو شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کا جلسہ، مجلس، اجتماع یا ذکر کرے تو گویا وہ شیعہ ہے یا اس کے اندر تشیع ہے۔ سن لیں! یہ کہنے والے فتنہ پرور لوگ ہیں۔ اس سوچ کو فروغ دینے والے ہر گز اہلسنت والجماعت نہیں، وہ خارجی المذہب ہیں اور خوارج ہیں۔ انہوں نے اہلسنت کے عقائد کو پراگندہ کرنے اور اِن کے دلوں سے حُب رسول ﷺ اور حُب اہل بیت علیہ السلام نکالنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ذکر حسین علیہ السلام کو صرف اہل تشیع کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے کہ یہ ان کا کام ہے اور اگر اہل سنت ذکر حسین علیہ السلام کریں گے تو گویا وہ شیعہ ہیں۔
افسوس! لوگوں کے اندر اتنی اخلاقی کمزوری آچکی ہے کہ وہ اس تہمت کے ڈر کی وجہ سے ذکر حسین علیہ السلام کی مجالس کا جرات کے ساتھ اہتمام نہیں کرتے حالانکہ تہمتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔ پس لوگوں کی تہمت کے ڈر سے ہم میں سے کئی ذکر امام حسین علیہ السلام کی محافل منعقد نہیں کرتے اور نہ ان میں شریک ہوتے ہیں کہ لوگ شیعہ سمجھیں گے، فلاں مولوی یہ کہہ دے گا، شور مچ جائے گا، فلاں جماعت یہ کہہ دے گی، فلاں تحریک اور فلاں تنظیم یہ کہہ دے گی۔ یاد رکھیں! فتنہ بپا کرنے والے، جھوٹے فتوے لگانے والے، شرانگیزی کرنے والے، لوگوں کے عقائد کو طرح طرح کے حملے سے منتشر کرنے والے اور راہ حق سے ہٹانے والے لوگ ہمیشہ دنیا میں رہے ہیں۔ خارجی فکر تو تسلسل سے ہر صدی میں موجود رہی ہے۔ آج جن لوگوں نے مسلمانوں اور امت مسلمہ کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، وہ یہی خارجی ہیں جنہوں نے امن کی راہ چھوڑ دی ہے۔ یہ حُب رسول ﷺ اور حُب اہلبیت کے خلاف ایک محاذ ہے۔ اہلسنت والجماعت کو فقط حُب صحابہ تک محصور کردیا ہے جبکہ اہل سنت والجماعت کا تشخص یہ تھا کہ حُب اہل بیت اور حُب صحابہ دونوں کو جمع کرنا اہل سنت کے ہاں ایمان تھا۔ دونوں کو جمع رکھنا یہ اہلسنت کا امتیاز اور تشخص تھا۔ آج اہل بیت کی محبت اور مؤدت کے ذکر کو بتدریج مختلف حیلوں بہانوں سے دلوں سے نکالا جارہا ہے۔ … جاری ہے