خلیفۂ سوم حضرت سیدنا عثمان ابن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابوعبداﷲ اور لقب ذوالنورین اور غنی ہے ۔ ذوالنورین کی وجہ تسمیہ یوں بیان کی جاتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی دو صاحبزادیاں سیدہ اُمِ کلثوم و سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں۔ آپؓ کا دوسرا مشہور لقب غنی ہے چونکہ آپؓ صاحبِ دولت تھے اور اپنا مال غرباء و مساکین پر اور خصوصیت سے اہلبیت اطہار پر اور جنگی تیاروں پر زیادہ خرچ کرتے تھے اس لئے ’’غنی‘‘ سے مشہور ہوئے ۔ آپؓ کی ولادت باسعادت واقعۂ فیل سے چھ سال بعد ہوئی ۔ آپؓ کا بچپن نہایت پاکیزگی میں گذرا ۔ آپ کے حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ سے نہایت گہرے دوستانہ تعلقات تھے اسی بنیاد پر حضرت صدیق اکبرؓ نے اسلام کی دعوت دی چنانچہ آپؓ نے انچالیس (۳۹) سال کی عمر ، بارگاہ رسالتﷺ میں پہنچکر اسلام قبول کیا ۔ آپؓ نے جب اسلام قبول کیا تو آپؓ کے چچا حکم ابن العاص نے آپؓ کو پکڑ کر باندھ دیا اور ظلم و تشدد کا ہر حربہ اختیار کیا لیکن آپؓ نے صاف الفاظ میں کہاکہ ’’چچا جان ! جان تو جاسکتی ہے لیکن ایمان نہیں جاسکتا ‘‘ ۔ حضرت عثمان غنیؓ نے دو ہجرتیں فرمائیں، ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینۃ الرسول کی جانب ۔ آپؓ میں عظیم قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ آپؓ کا شمار ’’عشرۂ مبشرہ‘‘ میں ہوتا ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ کے بارہ ۱۲ سالہ دورِ خلافت میں ابتدائی چھ سال نہایت امن و سکون ، نظم و نسق اور فتوحات کی وسعت میں گذرے ۔ آپؓ کے آخرزمانۂ خلافت میں جو فتنہ وفساد برپا ہوا علماء نے اُس کی متعدد وجوہات بیان کی ہیں، لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ آپؓ کے زمانہ آخر میں فسادات کی آگ بھڑکانے میں یہودیت نے گھناؤنا کردار ادا کیا ، خصوصاً یہودی النسل عبداﷲ ابن سبا نے حضرت عثمان غنیؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ کے مقامِ کو داغدار کرنے کی ناپاک جسارت کی ۔ آپؓ کو ۱۸ ذی الحجہ کو شہید کردیا گیا ۔ حضرت جبیر ابن مطعم نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع کے کنارے ’’حشِ کوکب ‘‘ میں تدفین عمل میں آئی ۔