ذاتِ باری تعالیٰ پر ایمان و ایقان اور توکل

مولانا غلام محمد قادری

لغت میں توکل کے معنی عجز و بیچارگی کا اظہار اور دوسرے پر اعتماد و بھروسہ کرنے کے ہیں، جب کہ اصطلاحِ شریعت میں توکل اس کو کہتے ہیں کہ بندہ اپنے معاملات کو خدا کے سپرد کردے، اپنی تدبیر و سعی کو ترک کردے اور اپنی ذاتی طاقت و قدرت سے بے پرواہ ہوکر تقدیر اور رضائے الہٰی پر کامل بھروسہ کرے، یعنی اس بات پر یقین رکھے کہ اس کی تدبیر و سعی اور ذاتی طاقت و قدرت، خدا کی مشیت اور اس کے فیصلہ کو بدل نہیں سکتی۔ یوں تو توکل کا تعلق تمام امور اور معاملات سے ہے، لیکن اکثر اس کا استعمال رزق کے بارے میں ہوتا ہے، یعنی توکل کا جو اصل مفہوم ہے، وہ اس بات پر اعتماد و بھروسہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے رزق کا ضامن ہے۔ حصولِ معاش کے لئے جائز، حلال، ظاہری وسائل اور ذرائع کو ترک کرنا گو توکل کے صحیح ہونے کی شرط نہیں ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ اصل اعتماد ان وسائل اور ذرائع پر نہ ہو۔
دراصل توکل کا تعلق دل سے ہے، اگر دل میں حق تعالیٰ کے ضامن ہونے کا یقین جاگزیں ہو گیا تو توکل کا مفہوم پورا ہو جائے گا۔ گویا اعضائے عمل کو معطل کردینا اور ہاتھ پاؤں ڈال کر اپاہج بن جانا توکل کے صحیح ہونے کے لئے لازم نہیں ہوگا اور نہ حصولِ معاش کے لئے ظاہری تدبیر اس کے منافی ہے۔ رہی یہ بات کہ بعض زاہدانِ طریقت اور درویش صفت طالبانِ معرفت حصولِ معاش کے ظاہری اسباب اور وسائل کو ترک کردیتے ہیں، تو ان کا وہ عمل محض ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مقامِ توکل ثابت ہو جائے، نفس زیادہ سے زیادہ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے اور نظرِ امید اسباب و ذرائع سے منقطع ہو جائے۔ علاوہ ازیں اس امر پر کامل یقین ہو جائے کہ ظاہری اسباب اور ذرائع رزق پہنچنے کے لئے شرط کا درجہ نہیں رکھتے۔
بعض حضرات نے توکل کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’بندہ، اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر اعتماد و یقین کے سبب حصولِ معاش کے اسباب اور کسب و عمل کی پابندیوں سے مطلق آزاد ہوجاتا ہے‘‘۔ لیکن یہ توکل کا وہ مقام ہے، جو ابتدائی حالت میں اختیار کیا جاتا ہے، یا ’’آزاد‘‘ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بندہ ان اسباب، وسائل اور کسب و عمل کے ساتھ ہر طرح کے قلبی تعلق و اعتماد کو ختم کردے، یعنی اپنے دل میں یہ خیال بھی نہ پیدا ہونے دے کہ ظاہری وسائل رزق پہنچنے کے لئے حقیقی مؤثر و مسبب ہیں۔ چنانچہ جو بندہ توکل کے آخری مرحلہ میں پہنچ جاتا ہے اور اس مقام کا منتہی ہوتا ہے، اس کا اسباب و وسائل اور کسب و عمل کو اختیار کرنا، اس کے حق میں توکل کے منافی نہیں ہوتا۔ اس کو خدا کی رزاقیت پر کامل یقین و اعتماد اس وقت بھی حاصل رہتا ہے، جب وہ اپنی روزی کے لئے اسباب و وسائل اور کسب و عمل میں مشغول ہوتا ہے۔ اس وقت بھی اس کے اس یقین و اعتماد میں ذرہ برابر رخنہ نہیں پڑتا، جب وہ ان چیزوں کو بالکل ترک کردیتا ہے۔

غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے وعدہ کی صداقت کو جزوایمان سمجھتا ہے، اگر وہ اس کے ضامن ہونے پر بھروسہ نہ کرے اور اس کے وعدہ پر یقین نہ رکھے تو اس کا ایمان کہاں رہے گا اور وہ کس طرح خدا کا بندہ کہلانے کا مستحق قرار پائے گا؟۔ لہذا ہر مؤمن کو چاہئے کہ وہ دنیا، دنیا کے مال و اسباب اور کسب و عمل کو محض حصولِ رزق کا ایک ظاہری وسیلہ، بہانہ اور سبب سمجھے، اس سے زیادہ اور کچھ نہ جانے اور یہ یقین رکھے کہ حقیقی رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اتنی قدرت رکھتا ہے کہ اس کے نزدیک ظاہری وسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ توکل و اعتماد کرنے والوں کو بے سبب، بے وسلہ اور بلا کسب و عمل بھی روزی پہنچاتا ہے۔ اسی طرح حصولِ معاش کے وسائل و ذرائع اور کسب و عمل میں مشغول ہونے کو خدا کی طرف سے مقرر کردہ نظامِ کائنات کا ایک سلسلہ اور رزق پہنچنے کا ظاہری سبب جانے۔ اس پر دل سے اعتماد و بھروسہ نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر اطمینان رکھے اور یہ جانے کہ اگر کوئی کسب و عمل نہ کروں گا، تب بھی اللہ تعالیٰ روزی پہنچائے گا۔ یہ توکل کا کم سے کم درجہ ہے، جو ایمان کے لئے ضروری ہے اور عام مسلمانوں کا مرتبہ ہے۔

جو شخص عیالدار ہو اور اس کے اہل و عیال حالات کی تنگی پر صبر نہ کرسکتے ہوں اور وہ اس بات کی اجازت نہ دیتے ہوں کہ وہ شخص توکل کے سبب کوئی کسب و عمل نہ کرے اور حصولِ معاش کے ظاہری اسباب و ذرائع سے باز رہے تو ایسے شخص کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ وہ کوئی کسب و عمل نہ کرے اور ذرائع سے اجتناب کرے۔ اپنے اہل و عیال کے لئے ایک سال تک کا اور اپنی ذات کے لئے چالیس روز تک کا بقدر ضرورت غذائی ضروریات کا اکٹھا کرنا توکل کے منافی نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص ازراہِ توکل غذائی ضروریات کی چیزیں پہلے سے نہ رکھے اور سب کچھ ترک کردے، بشرطیکہ اللہ پر اس کو پورا بھروسہ و اطمینان ہو تو یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کا حامل ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ حاصل کرنے کے لئے بڑی زبردست قوت اور ہمت کی ضرورت ہے، لہذا جس شخص کو اتنی قوت و ہمت میسر نہ ہو اور اگر وہ غذائی ضروریات نہ رکھنے کی صورت میں طاعت و عبادت میں اطمینان و سکون اور دلجمعی حاصل نہ کرسکتا ہو تو اس کے لئے یہ افضل ہوگا کہ وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی غذائی ضروریات کے لئے غلہ وغیرہ اکٹھا کرکے رکھے۔

علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ توکل اسی شخص کو راس آتا ہے، جو توحید آشنا اور زہد صفت ہو۔ یہاں توحید سے مراد یہ ہے کہ بندہ یہ جانے کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں اور یہ جانے کہ سب کا حقیقی محرک و عامل بس حق تعالیٰ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ذات ایسی نہیں ہے، جس کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی جنبش کرسکے اور جہاں بھی جو کچھ بھی آتا جاتا ہے، سب کا منبع و مصدر اسی ذات واحد کی مرضی و مشیت ہے۔ جس شخص کے دل پر یہ بات غالب آجائے گی، اس کو بے اختیار توکل حاصل ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ اکثر انبیاء کرام و اولیاء عظام کا یہ معمول رہا ہے کہ انھوں نے حصولِ معاش کے لئے ظاہری اسباب و ذرائع کو اختیار کیا اور کسب و عمل سے باز نہیں رہے۔ جو شخص کسب و عمل کی وجہ سے اپنی دینی زندگی میں کوئی نقصان اور اپنے باطنی احوال میں رخنہ پڑتا ہوا دیکھے تو اس کے لئے بہرصورت یہ ضروری ہوگا کہ وہ دیگر چیزوں سے تعلق منقطع کرکے ذکر و فکر اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے اور واصل بحق ہو۔