بے شک دین اللہ تعالی کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور نہیں جھگڑا کیا جن کو دی گئی تھی کتاب مگر بعد اس کے کہ آگیا تھا ان کے پاس صحیح علم (اور یہ جھگڑا) باہمی حسد کی وجہ سے تھا اور جو انکار کرتا ہے اللہ کی آیتوں کا تو بے شک اللہ تعالی بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ (سورہ آل عمران۔۹۱)
علامہ ابن کثیر نے اسلام کے مفہوم کو بڑے آسان اور واضح الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’ہر زمانہ کے نبی پر اللہ تعالی نے جو نازل فرمایا، اس کی اطاعت و اتباع کو اسلام کہتے ہیں، یہاں تک کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اسلام نام ہو گیا اتباع محمدی کا۔ اس ذات اقدس کو چھوڑکر کوئی شخص اگر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا تو وہ گمراہی کا راستہ ہوگا‘‘۔ اس آیت سے تاریخ ادیان کے طالب علم کے لئے قرآن پاک نے ایک بڑی الجھی ہوئی گرہ کھول دی۔ اس نے بتادیا کہ مختلف انبیاء کرام مختلف زمانوں میں الگ الگ دین لے کر نہیں آئے، بلکہ سب نے اپنے اپنے وقت میں ایک ہی دین کی دعوت دی اور ایک ہی دین کی تبلیغ کی۔ کیونکہ وہ سب حق کے پیغامبر تھے۔ حق کی طرف بلانے والے تھے، حق کے ساتھ مبعوث کئے گئے تھے اور حق ایک ہی ہے۔ اس لئے سب ایک ہی دین کے مبلغ بن کر آئے تھے۔ اب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی دین کے داعی بن کر آئے ہیں، کوئی نیا دین لے کر نہیں آئے، اس لئے اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہی دین اسلام ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی چھوڑکر جو شخص بھی کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا، وہ اللہ تعالی کے نزدیک مقبول نہیں ہوگا۔