دین و دنیا کی دولت میں فرق

محمد بدیع الدین نقشبندی

انسان کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ سب سے زیادہ مالدار ہوکر بے نیاز ہو جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ بے نیاز خوبیوں والا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۳۵) خدا وہ ہے، جس کو کوئی حاجت ہی نہ ہو۔ تاریخ کے ہر دور میں انسانوں کے درمیان معاشی ناہمواریاں رہی ہیں، یہ مشیت الہٰی ہے۔ انسان کی جان و مال کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کو کسی چیز پر ملکیت کا حق حاصل نہیں ہے، ہر نعمت محض عطائے خداوندی ہے۔
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کی تقسیم میں تمہارا جو حصہ ہے، اسی پر راضی ہونا چاہئے۔ یقیناً اگر اللہ تعالیٰ کسی کو مال عطا کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر وہ کسی کو نہ دینا چاہے تو کوئی دے نہیں سکتا‘‘۔ عطا کرنے اور روکنے پر اللہ تعالیٰ پوری قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مال اسے دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اسے بھی دیتا ہے جسے نہیں چاہتا، لیکن ایمان کی دولت صرف اسے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے اور جسے نہیں چاہتا ایمان کی دولت نہیں دیتا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مال و دولت عطا کیا تو وہ یہ گمان نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون، ہامان، شداد اور ابوجہل کو بھی مال دیا تھا، لیکن یہ سب غضب الہٰی میں گھرے رہے اور اگر ہمیں غریب و نادار رکھا ہو تو ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے برگزیدہ بندوں نے کسمپرسی کی زندگی گزاری ہے، جب کہ وہ بندے اللہ تعالیٰ کے بہت چہیتے تھے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے نہ مانگنے پر اور دوسرے ناراض ہوتے ہیں مانگنے پر۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی لازوال نعمتوں کا حقیقی مالک اور وہی عطا کرنے والا ہے۔