یہ ایک حقیقت ہے کہ ساری دنیا میں تعلیمی شعور و آگہی کی پیش رفت دور اسلامی سے شروع ہوئی اور مسلمانوں نے علوم اسلامیہ دینیہ کی نشر و اشاعت میں جس طرح بے مثال خدمات انجام دی ہیں، وہیں مقاصد تخلیق اور کائنات کے مصالح کی تکمیل کے لئے دنیوی علوم میں رہنمایانہ نقوش چھوڑے اور ساری دنیا میں جہانبانی اور خدمت خلق کے لئے تعلیمی شعور کو بیدار کیا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وہی ذات ہے جس نے تمہاری خاطر ان تمام چیزوں کو پیدا کیا، جو زمین میں ہیں‘‘ (سورۃ البقرہ۔۹۲) ارشاد ربانی ہے: ’’اللہ سبحانہ و تعالی نے تمہارے لئے چاند و سورج کو تابع کردیا‘‘۔ (سورہ ابراہیم۔۳۳)
یہ کائنات کی زیب و زینت، رونق و بہار، شجر و حجر، جمادات و نباتات، حیوانات، حتی کہ شمس و قمر سب انسان کی منفعت و فائدہ کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں۔ کائنات کی ہر شے اللہ تعالی نے انسان کے لئے بنائی ہے، لیکن ہمیں پتہ ہی نہ ہو کہ اللہ تعالی نے زمین کے وسیع و عریض سینے میں ہمارے لئے کن خزانوں اور دفینوں کو پوشیدہ رکھا ہے، تو ان سے استفادہ کس طرح ممکن ہوگا؟۔ ان تمام اشیاء کے فوائد و منافع سے ہم واقف نہ ہوں تو خدا کے احسانات و انعامات کی کیا ناشکری متصور نہیں ہوگی؟۔
ساری دنیا میں اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے علم کو نہ صرف غیر معمولی اہمیت دی، بلکہ اس کو فوق الکل قرار دیا۔ قرآن مجید میں علم اپنے مختلف اشتقامی معنی و مفہوم میں ۸۷۷ مرتبہ وارد ہوا اور جا بجا ’’تعقلون، یتدبرون، تفقھون، تشعرون‘‘ کے ذریعہ غور و فکر اور شعور و تدبر کی اہمیت کو اجاگر کیا، بالخصوص ان تمام مقامات میں علم کی دو جہتوں پر ہی روشنی ڈالی گئی: (۱) وہ علم جو ذات باری تعالی کی صفت خاص ہے (۲) وہ علم جو مخلوق خصوصاً انسان کو عطا کیا گیا ہے۔
خدا کی آیات و نشانیاں کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، قرآن مجید میں ان کے مشاہدہ اور تجزیہ پر زور دیا گیا۔ بر و بحر، ارض و سماوات کے مطالعہ اور تحقیق کی بار بار تاکید کی گئی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’تحقیق کہ ہم نے نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کیا ہے ایسی قوم کے لئے جو علم رکھتی ہے‘‘ (سورۃ الانعام۔۷۹) ارشاد فرمایا: ’’ہم عنقریب ان کو آفاق و انفس میں چھپی ہماری نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں گے‘‘ (سورہ حم السجدہ۔۳۵) فرمایا: ’’کیا وہ غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالی نے اونٹ کو کس طرح پیدا کیا‘‘۔ اس طرح کی کئی آیتیں ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے دنیا میں غور و فکر، تدبر و تفکر کی دعوت دی اور تعلیمی شعور کو بیدار کیا۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں نبی آخر الزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات طیبہ میں ایک اہم صفت کا ذکر کیا: ’’(آپ صلی اللہ علیہ وسلم) ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۹۲)
علم اور حکمت دونوں چیزیں نظام تمدن یا کسی اور عمدہ نظام کی بنیاد رکھنے کے لئے ناگزیر ہیں۔ معاشرت، سیاست اور ریاست کی حکمرانی کے لئے جہاں علم کا ہونا ضروری ہے، وہیں حکمت و تدبیر کا جاننا بھی ناگزیر ہے۔ مسلمان تسخیر عالم کے قابل ہوئے، اس لئے کہ انھوں نے علم کے ہتھیار کو اٹھایا اور مختلف صدیوں میں تاتاریوں کے حملہ کے مماثل ناگہانی مصیبتیں آئیں، لیکن مسلمان قوم نے عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا اور اس علم کے ذریعہ پھر دنیا میں اپنے وجود کو منوایا اور دنیا کو زیر نگیں کیا۔ لیکن حالیہ دور میں مسلمانوں کے عزم و ہمت میں جہاں پستی واقع ہوئی ہے، وہیں ان میں فکری انحطاط بھی آیا ہے۔ صدیاں بیت رہی ہیں، مسلمان ظلم و ستم کے شکار ہو رہے ہیں، شکست و ہزیمت سے دو چار ہو رہے ہیں، ذلت و خواری کی زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن ان کے نظریات و افکار میں تبدیلی نہیں آرہی ہے۔
علم سے متعلق مسلم قوم میں جو فکری انحطاط پایا جاتا ہے وہ ناگفتہ بہ ہے۔ علم دین کو اخروی علم کے نظریہ سے دیکھا جاتا ہے اور دنیوی علوم کو ضرورت اور معیشت کے اعتبار سے سوچا جاتا ہے۔ علم دین کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، لیکن خوشحال و آسودہ زندگی گزارنے کے لئے دنیوی علوم کو ترجیح دی جاتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے لئے مختص کرنے سے خوف زدہ ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی اولاد کا مستقبل تاریک ہوگا اور وہ معاشی مسائل سے دو چار ہوں گے اور بعض دنیوی علوم سیکھنے کو حقیر جانتے ہیں۔ بلاشک و شبہ دینی علم ہی کو اخروی سعادت کا ضامن سمجھنا راہبانہ تخیلات ہیں اور دنیوی علوم کو صرف دنیا کی ترقی میں ممد و معاون سمجھنا کوتاہ نظری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نظریہ میں ’’کلیت‘‘ ہے، دینی و دنیوی علوم کے سیکھنے کی تلقین ہے۔ علم کا مقصد اللہ تعالی کی رضا، اسلام کی سربلندی، مخلوق خدا کے کام آنا، دنیوی اور اخروی سعادتوں سے محظوظ ہونا ہے۔ جس طرح دینی علم فضل و بزرگی کا حامل ہے، اسی طرح دنیوی علم کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔ اگر کوئی شخص دنیوی علوم میں کمال حاصل کرتا ہے، اس غرض سے کہ انسانیت کے کام آئے، مخلوق خدا کی رہبری کرے، اللہ تعالی کے کنبہ کی نصرت و حمایت کرے، اسلام کی سربلندی اور ملت اسلامیہ کی ضرورتوں کی تکمیل کرے، تو یہ علم دین و دنیا میں کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے۔
جناب محمد رضی الدین معظم
تلاشِ گمشدہ
نمازوں کی پابندی کریں، کسی کا دل نہ دُکھائیں، ٹی وی حرام ہے، لہذا اسے دیکھنے سے ہرممکن گریز کریں۔
آئے دن اخبارات میں تلاش گمشدہ کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں، جنھیں پڑھ کر آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ ان ہی پریشانیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہاں چند اعمال لکھے جا رہے ہیں، جن پر عمل کرکے انشاء اللہ تعالیٰ آپ اپنی پریشانی دُور کرسکیں گے۔
٭ اگر کوئی شخص (بڑا یا چھوٹا) گم ہو جائے تو دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھ کر ۱۱۹ بار ’’یاحفیظ‘‘ پڑھیں۔ پھر سورۂ لقمان کی آیت ۱۶ بھی ۱۱۹ بار پڑھیں اور گمشدہ کا نام لے کر دعا کریں، انشاء اللہ تعالیٰ کامیابی ملے گی۔
٭ کسی بھی وقت دو رکعت نفل پڑھ کر سورۂ قصص کی آیت ۸۵ اور سورۂ حدید کی ابتدائی ۶ آیات ۳۱۳ بار پڑھیں اور نام لے کر دعا کریں، انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد کامیابی ملے گی۔