چلاجاتاہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
دینی مدارس کو نشانہ بنانے کی سازش
مرکز میں بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے فرقہ پرست طاقتوں کے عزائم ایسا لگتا ہے کہ بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ غیر سرکاری سطح پر ہندو کٹر پسند تنظیموں کی جانب سے مختلف بہانوں کے ذریعہ فرقہ پرستی کا زہر بڑے پیمانے پر گھولا جا رہا ہے ۔ تاہم سرکاری سطح پر بھی آر ایس ایس سے الحاق رکھنے والے اور متعصب ذہنیت والے عہدیداروں کو جس انداز میں بڑھاوا دیا جا رہا ہے اس کے نتیجہ میں خود حکومت کے عزائم بھی بہتر نظر نہیں آتے ۔ ویسے تو متعصب ذہنیت رکھنے والوں کیلئے دینی مدارس کو برداشت کرنا محال تھا ہی لیکن مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مدارس کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں شدت آگئی ہے ۔ مختلف حیلے بہانوں سے ان کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ حالانکہ وزیر اعظم ایک جانب ملک کے مسلمانوں کی حب الوطنی پر فخر کا اظہار کرتے ہیں لیکن دوسری جانب خود ان کی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ دینی مدارس کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیتے ہیں۔ سرکاری سطح پر جو عہدیدار با اختیار بنادئے گئے ہیں ان کی ذہنیت بھی آر ایس ایس سے متاثر ہے اور وہ بھی ملک میں دینی مدارس کا وجود برداشت کرنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔ کہیں ان مدارس کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیا جاتا ہے تو کہیں کہا جاتا ہے کہ ان مدارس میں دہشت گردوں کو تیار کیا جا رہا ہے ۔ کہیں ان مدارس کے ریکارڈز کی تنقیح کے نام پر انہیں ہراساں کیا جاتا ہے تو کہیں طلبا اور مدرسین کے روابط کی جانچ پڑتال شروع کی جاتی ہے ۔ یہ سب کچھ متعصب ذہنیت کا نتیجہ ہے ورنہ ہندوستان میں تو دینی مدارس وقت کی اہم ضرورت ہیں جہاں طلبا کو حق و باطل کی پہچان کروائی جاتی ہے اور انہیں ذمہ دار شہری بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ یہاں طلبا و طالبات کو پابند ڈسیپلن اور قانون کے پابند شہری کے طور پر تیار کیا جاتا ہے ۔ ان میں زندگی کو صحیح ڈھنگ سے گذارنے کا شعور پیدا کیا جاتا ہے اور اچھے اور برے کی پہچان کرواتے ہوئے انہیں ایک مثالی شہری بنانے پر توجہ دی جاتی ہے ۔ ان مدارس کے تعلق سے زہر افشانی کرنا انتہائی قابل مذمت عمل ہے ۔
گذشتہ دنوں جہاں بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ اور آر ایس ایس ذہنیت رکھنے والے عہدیدار مدارس کے تعلق سے غیر ضروری اندیشے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے میں مصروف تھے وہیں حکومت کی جانب سے ان مدارس کے تعلق سے باضابطہ انکوائری کروائی گئی اور وجہ یہ ظاہر کی گئی کہ ان مدارس میں بیرونی اساتذہ کی موجودگی کے تعلق سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے جو تحقیقات یا انکوائری کروائی ہے ان میں کوئی بھی دینی مدرسہ ثابت نہیں ہوسکا جہاں کوئی غیر قانونی سرگرمی چل رہی ہو یا پھر وہاں دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام درست ثابت کیا جاسکے یا جہاں کے طلبا کو مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دیا جاسکے ۔ ان کے روابط کوقوم مخالف عناصر سے جوڑا جاسکے۔ حکومت کی جانب سے کیا گیا یہ سروے دینی مدارس کی اہمیت کو بھی واضح کرتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں مدارس لاکھوں کی تعداد میں طلبا و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں اور انہیں ایک اچھا انسان اور اچھا شہری بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس سے ملک و قوم کا مستقبل بھی بہتر ہوسکتا ہے اور یہ مدارس قوم کی تعمیر میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اب حکومت کے سروے یا تحقیقات کے بعدیہ حقائق پوری طرح سے واضح ہوچکے ہیں۔ اس سے ان فرقہ پرستوں کا منہ بند ہوجانا چاہئے جو دینی مدارس کے تعلق سے غلط فہمیاں پیدا کرنے میں سب سے آگے تھے ۔
مرکز میں نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت کسی بھی فرقہ یا برادری کے ساتھ امتیاز نہیں برتے گی لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں اور مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آر ایس ایس نے کھل کر زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے اور اس کے پروردہ عہدیدار یا سیاسی قائدین مسلمانوں اور مسلمانوں کے مدارس کو نشانہ بنانے کے عمل میں جٹ گئے ہیں۔ حکومت کی سطح پر جو انکوائری رپورٹ سامنے آئی ہے اس کے بعد کم از کم ان عناصر کو امتیازی رویہ کو ترک کرتے ہوئے متعصب ذہنیت کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ صرف زبانی ہمدردیاں دکھانے کی بجائے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرست عناصر کو نہ صرف اس طرح مدارس کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں ملوث ہونے کا موقع نہ دے بلکہ ان پر روک بھی لگائے ۔