دیسی سپاہ کی بغاوت

میاں محمد افضل
۱۸۵۷ء میں حکم عدولی کرنے والے پچاسی سپاہیوں (جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی) کے لئے فوجی عدالت قائم ہوئی اور انھیں یکطرفہ طورپر دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اگلے روز ۹؍ مئی ۱۸۵۷ء کو سزا پر عمل درآمد کے لئے ان سپاہیوں کو پریڈ کے میدان میں لایا گیا، جہاں ان کے ارد گرد چھاؤنی کے دوسرے دیسی سپاہی بھی موجود تھے۔ ایک طرف انگریز فوجی اور توپیں کھڑی کی گئیں، تاکہ ذرا سی بھی مزاحمت ہو تو سب کو بھون ڈالا جائے۔ سرجان نے لکھا ہے کہ ’’یہ منظر بڑا دردناک تھا‘‘۔ سر عام ان قیدیوں کی وردیاں اتاری گئیں اور بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ اس وقت ان کے گرد کھڑے ساتھی سپاہیوں کے دل میں نفرت کا طوفان پیدا ہو رہا تھا۔

اسی وقت انھوں نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس ذلت آمیز سلوک پر خاموش نہیں رہیں گے، کیونکہ گورے جس فرعونیت اور رعونت کے ساتھ مقامی لوگوں اور سپاہیوں پر تشدد اور ذلت مسلط کر رہے تھے، اس کا نشانہ کل دوسرے سپاہی بھی بن سکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے قیدی ساتھیوں کو چھڑانے کا فیصلہ کیا اور اگلے روز (۱۰؍ مئی) شام کے وقت جب گورے چرچ جانے کی تیاری کر رہے تھے، رسالے نے قید خانے پر دھاوا بول کر نہ صرف اپنے پچاسی ساتھیوں بلکہ دیگر قیدیوں کو بھی آزاد کرالیا۔ اس کے بعد باغی سپاہ کے لئے پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہ رہا۔ اس ہنگامے میں مزاحمت کرنے والے چند انگریز مارے گئے، جب کہ شہر میرٹھ میں ہراس پھیل گیا۔ شہر اور چھاؤنی میں کئی مقامات پر فتنہ پردازوں نے آگ لگادی۔ دیسی سپاہیوں نے عموماً میرٹھ سے دہلی کا رخ کیا، جب کہ بعض سپاہی دوسرے شہروں کی طرف نکل گئے۔۱۱؍مئی کو صبح سویرے یہ لوگ دہلی کی فصیل کے نیچے موجود تھے اور ’’دین دین‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

جنگ آزادی شروع ہو چکی تھی، ملک میں جو تناؤ اور اضطراب کی کیفیت تھی اور جس طرح مختلف اطراف سے ہوش ربا خبریں مل رہی تھیں، دہلی کے لوگ کسی نہ کسی ہنگامے کی پہلے ہی توقع لگائے بیٹھے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرٹھ کے باغی سپاہیوں کی دہلی روانگی کے متعلق ایک تار دہلی کے کمشنر مسٹر فریزر کو رات کے وقت بھیجا گیا تھا، لیکن اس نے اٹھ کر تار کے مندرجات پڑھنے پر نیند کو ترجیح دی اور جب صبح اٹھا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ فریزر باغیوں کے دہلی میں داخلہ کے ساتھ ہی مارا گیا۔ جب میرٹھ کی سپاہ صبح سویرے دہلی پہنچی تو اس نے شہر کے تمام دروازے بند پائے، آخر کار وہ دریا کے رخ پر لال قلعہ کے سامنے بادشاہی جھروکہ کے نیچے پہنچی اور شور مچایا کہ ہم نے میرٹھ میں انگریزوں کو قتل کردیا ہے، دین کی خاطر جنگ کا فیصلہ کرچکے ہیں، ہماری امداد فرمائیے اور سرپر ہاتھ رکھئے، کیونکہ آپ ہی ہمارے دین اور دنیا کے نگہبان ہیں۔ اسی سالہ بہادر شاہ ظفر کو اس اچانک ہنگامے پر تعجب ہوا اور انھوں نے شاہی دستہ کے افسر کیپٹن ڈگلس کو بلایا۔ ڈگلس نے برآمدے میں آکر سپاہیوں سے کہا کہ ’’یہ بادشاہ کی خوابگاہ ہے، تم یہاں شور و غل مت کرو اور کوٹلہ کی طرف چلے جاؤ‘‘۔

بہرحال وہاں سے بھوکے پیاسے اور تھکے ماندے سپاہی راج گھاٹ دروازے کی طرف گئے، جو کسی طرح کھل گیا اور اس طرح باغی شہر میں داخل ہو گئے اور انگریزوں میں سے جو سامنے آیا، اسے قتل کردیا۔ اس جنون میں ان سے یہ زیادتی ہوئی کہ انگریز عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ دہلی کی چھاؤنی شہر سے باہر شمال کی طرف پہاڑی کے پاس تھی، جہاں انگریز فوج بہت کم تھی۔ کچھ انگریزوں نے (جو شہر میں تھے) قلعہ میں پناہ لینے کی کوشش کی، لیکن شہر میں ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ لوگوں کا ایک ریلا آیا اور یہ سب انگریز قتل ہو گئے۔ بڑے انگریز افسروں میں سے مجسٹریٹ تھوفلس مٹکاف کسی طرح بچ نکلا اور وہ ہانسی چلاگیا (بعد میں مٹکاف نے انتقام میں شقاوت و سفاکی کی انتہا کردی) دہلی میں اب باغیوں کا راج تھا۔ پہلے نعرہ ہوتا تھا ’خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا‘‘ مگر اب نعرہ میں یہ تبدیلی کرکے یہ پکارا جانے لگا کہ ’’حکم بادشاہ کا‘‘۔

مختصراً یہ کہ خواستہ یا نخواستہ سن رسیدہ بہادر شاہ ظفر کو تحریک کی قیادت کرنی پڑی، لیکن اس طرح کہ کوئی عملی حصہ نہیں لیا۔ شہر دہلی میں گرد و نواح کے گجر، میواتی اور تلنگے کثیر تعداد میں داخل ہو گئے، جو شہر میں لوٹ مار کرتے پھرے، اس طرح دُکانداروں نے اپنا کاروبار بند کردیا، جس سے تحریک کی رسوائی ہوئی۔ باغیوں کے ساتھ شہر کے لوگ بھی بلالحاظ مذہب و ملت شامل ہو گئے تھے، لیکن عملی کارروائی کے وقت یہ پیچھے ہٹ جاتے۔ ہندوستان کے دیگر حصوں سے بھی باغی سپاہی اور آزادی پسند عوام دہلی میں جمع ہوتے رہے، اس طرح دہلی ہندوستان بھر میں آزادی کی جدوجہد کا مرکز بن گیا۔ تاہم جوش و جذبہ کے باوجود دانشمندانہ قیادت کا فقدان تھا۔ بادشاہ ضعیفی کی اس منزل میں تھے، جس میں قوت ارادی کمزور ہو جاتی ہے، جب کہ شہزادے نااہل تھے۔ جولائی میں روہیل کھنڈ سے جنرل بخت خان نے آکر جدوجہد میں نئی روح پھونکی، لیکن اس کے کام میں بھی مسلسل روڑے اٹکائے جاتے رہے۔