دہلی ‘ انتخابات کی تیاریاں

اُس گھڑی آرزو کہاں ہوگی
زندگی جب دھواں دھواں ہوگی
دہلی ‘ انتخابات کی تیاریاں
ملک کی راجدھانی دہلی میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ فی الحال کشمیر اور جھارکھنڈ میں انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے جہاں پانچ مراحل میں اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ان ریاستوں میں انتخابی مہم بھی بتدریج زور پکڑتی جا رہی ہے۔ ایسے میں دہلی میں اسمبلی کو تحلیل کرتے ہوئے وہاں تازہ انتخابات کی سفارش کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ دنوں میں دہلی میں انتخابات کے تعلق سے شیڈول کا اعلان ہوسکتا ہے۔ یہاں عام آدمی پارٹی کی حکومت کے استعفے کے بعد سے صدر راج نافذ تھا۔ حالانکہ لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ نے ریاست میں بی جے پی کو تشکیل حکومت کا موقع دینے کی صدر جمہوریہ سے سفارش کی تھی اور صدر جمہوریہ نے اس سفارش کو منظور بھی کرلیا تھا تاہم بی جے پی نے یہاں حکومت بنانے سے گریز کیا تھا۔ بی جے پی کو یہاں درکار ارکان کی تائید حاصل نہیں تھی اور وہ کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھی۔ وہ چاہتی ہے کہ جس طرح سے اسے لوک سبھا انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی اور پھر اب حالیہ انتخابات میں مہاراشٹرا اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو اقتدار ملنے کے بعد دہلی میں بھی اسی لہر سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے گورنر کی سفارش کے باوجود حکومت سازی سے دور ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کانگریس پہلے ہی اس دوڑ سے علیحدہ ہوچکی تھی اور عام آدمی پارٹی کی حکومت نے استعفی پیش کردیا تھا۔ اس صورتحال میں اب وہاں تازہ انتخابات کروانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا تھا۔ اندرون ایک سال یہاں انتخابات کی ضرورت آن پڑی ہے اور سیاسی عدم استحکام اس کی وجہ رہی ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ملک میں چلنے والی مخالف کانگریس لہر سے فائدہ اٹھایا جائے اور عام آدمی پارٹی کو عوام میں گھسیٹ کر اقتدار سے فرار ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے رائے دہندوں کو اس سے بیزار کیا جائے۔ بی جے پی اب تک کی اپنی حکمت عملی میں کامیاب کہی جاسکتی ہے تاہم اس نے اس معاملہ میں مرکز میں اپنے اقتدار سے سے بیجا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس پر دہلی کے لیفٹننٹ گورنر پر اثر انداز ہونے کا الزام بھی عائد کرچکی ہے۔ اب ایک پورا چکر مکمل ہونے کے بعد وہاں تازہ انتخابات کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے اور سیاسی جماعتیں اس کی تیاریوں میں بھی جٹ گئی ہیں۔ بی جے پی ملک میں نریندرمودی کے حق میں چلنے والی لہر سے فائدہ اٹھانے کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے عوام پر انتخابات مسلط کرنا ضروری سمجھا اور حکومت بنانے سے گریز کیا ہے۔ وہ انتخابات کے دوران عوام کو کانگریس اور عام آدمی پارٹی سے دور کرتے ہوئے اپنے لئے تنہا اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسے گذشتہ انتخابات میں بھی واحد بڑی جماعت کا موقف حاصل ہوا تھا لیکن اکثریت نہیں مل سکی تھی۔ کانگریس کی تائید سے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے وہاں حکومت بنائی تھی۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ اسے اب تنہا اقتدار حاصل ہوجائے۔ اسی لئے اس نے حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت نہیں بنائی۔ عام آدمی پارٹی بی جے پی کے اس مقصد کو ناکام بنانے سرگرم ہوگئی ہے۔ پارٹی سربراہ اروند کجریوال نے اعلان کردیا ہے کہ وہ آئندہ دس سال تک دہلی میں ہی رہیں گے۔ اس طرح انہوں نے عوام کے ذہنوں سے یہ خدشہ دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایک بار پھر دہلی میں عوام کی ذمہ داری نبھا نے سے فرار حاصل کرینگے۔ بی جے پی اور کانگریس کی جانب سے خاص طور پر ان پر یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے دہلی کے عوام کا ووٹ اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے باوجود حکومت چلانے سے گریز کرتے ہوئے ذمہ داریوں سے فرار اختیار کیا تھا۔ کجریوال بھی اپنی اس غلطی کا اعتراف کرچکے ہیں اور وہ اس کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی اپنی پوری طاقت اور توڑ جوڑ کے ذریعہ دہلی میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس پارٹی کو یہاں ہنوز مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ اس کے کیڈر میں مایوسی اور پژمردگی دکھائی دیتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی صفوں میں بھی وہ جوش و خروش دکھائی نہیں دیتا جو ہونا چاہئے تھا۔ اس کے کچھ قائدین پارٹی سے ترک تعلق کرچکے ہیں۔ شازیہ علمی ‘ جو پارٹی کی ایک بڑی لیڈر سمجھی جاتی تھیں نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بی جے پی میں شامل ہوچکی ہیں۔ یہ صورتحال بی جے پی کیلئے سازگار کہی جاسکتی ہے۔ وہاں توڑ جوڑ اور حکمت عملی کی لڑائی ہونے والی ہے اور اس میں دہلی کے عوام کو پوری ذمہ داری کے ساتھ اس میں اپنا رول نبھانا ہوگا۔ انہیں سیاسی جماعتوں کے بہکاوے اور فرقہ پرستانہ سیاست کا شکار ہوئے بغیر دارالحکومت کی حقیقی ترقی کو یقینی بنانے کرپشن سے پاک اور بے داغ قائدین کا انتخاب عمل میں لانا چاہئے۔