دہلی ہائیکورٹ کے فیصلہ پر سپریم کورٹ کا حکم التواء

نیشنل ہیرالڈ مقدمہ

نئی دہلی 5 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر آج حکم التواء جاری کردیا جس میں اسوسی ایٹیڈ جرنلسٹس لمیٹیڈ (اے جے ایل) سے جو نیشنل ہیرالڈ کے ناشر ہیں، ہیرالڈ ہاؤس کی عمارت کا جو نئی دہلی میں واقع ہے، تخلیہ کرنے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیرقیادت سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے مرکزی حکومت کے شعبہ اراضی و ترقیات کے دفتر کو بھی اے جے ایل کی درخواست پر نوٹس جاری کی۔ اے جے ایل نے ہائیکورٹ کے حکمنامے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اِس کی درخواست مرکز کو کوئی بھی ’’دھمکانے کے اقدامات‘‘ تخلیہ کروانے کے لئے کرنے سے باز آجانے کی خواہش کی گئی تھی۔ ہیرالڈ ہاؤس کے تخلیہ کے لئے جو قومی دارالحکومت کے وسطی علاقہ میں گنجان آباد علاقہ میں واقع ہے، تخلیہ کے لئے اے جے ایل سے مرکز خواہش کررہا تھا، ہائیکورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ اے جے ایل کے حصص کی منتقلی ینگ انڈین کمپنی کو جو سودا کیا گیا تھا، جس میں صدر کانگریس راہول گاندھی اور اُن کی والدہ سونیا گاندھی ملوث تھیں، مکمل طور پر خفیہ اور مشتبہ تبدیلی تھی-

جو اِس احاطہ میں پُرکشش مفادات کی منتقلی کے لئے کی گئی تھی، اے جے ایل نے عدالت عالیہ سے خواہش کی تھی کہ مرکزی حکومت کے اقدامات کو 30 اکٹوبر 2018 ء تک ملتوی کردیا جائے جبکہ 56 سالہ لیز کا اختتام ہوگا اور اُس کے بعد اِس اراضی کے تخلیہ کا حکم اور اشاعت کی سرگرمی نہ کرنے کا حکم لاگو ہوگا اور اِس احاطہ کو صرف تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔ 28 فروری کو ہائیکورٹ نے اے جے ایل کی درخواست مسترد کردی تھی اور کہا تھا کہ یہ لیز کی شرائط کا ’’غلط استعمال‘‘ ہے۔ اِس مہم کا مقصد درحقیقت پنڈت نہرو پر الزام عائد کرنا ہے اور قوم کی بیماری کے لئے اُن کو ذمہ دار قرار دینا ہے۔ تخلیہ کی کارروائی ایک رسوا کن اقدام ہے اِس سے عظیم تر مقاصد بے نقاب ہوتے ہیں کہ مرکز پنڈت نہرو کی وراثت پر حملہ کرنا اور اُنھیں بدنام کرنا چاہتی ہے۔ مرکز اور ایل اینڈ ڈی یو نے کہاکہ حکمنامے کے بموجب اِس احاطہ میں گزشتہ 10 سال سے کوئی مطبع سرگرم نہیں ہے اور یہ صرف تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے جو لیز کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اے جے ایل نے اِن الزامات کی تردید کی تھی اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی تھی۔ کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے کئی انکشافات مرکز کے زبانی دلائل اور تواریخ کی فہرست جو دلائل کے دوران داخل کی گئی ہے اور ایک بھی حلفنامہ ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔