دہلی کی انتخابی مہم اور بی جے پی

ہمیشہ ہی نہیں رہتے ‘ کبھی چہرے نقابوں میں
سبھی کردار کھلتے ہیں ‘ کہانی ْختم ہونے پر
دہلی کی انتخابی مہم اور بی جے پی
دہلی اسمبلی کیلئے انتخابی مہم کا اختتام عمل میں آگیا ۔ یہ مہم انتہائی شدت کے ساتھ چلائی گئی ۔ یہاں مقابلہ کرنے والی تینوں ہی جماعتوں عام آدمی پارٹی ‘ بی جے پی اور کانگریس نے رائے دہندوں تک پہونچنے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوششوںمیں کسی طرح کی کسر باقی نہیں رکھی ۔ ویسے بھی جب کبھی انتخابات ہوتے ہیں ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رائے دہندوں سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کئے جائیں ۔ہر جماعت اس کیلئے جو کچھ ممکن ہوسکے کرتی ہے تاہم دہلی میں اس بار اسمبلی انتخابات کیلئے جس طرح کی مہم چلائی گئی ہے اور خاص طور پر بی جے پی نے جو انداز اختیار کیا تھا وہ قومی سطح پر کام کرنے والی اور مرکز میں اقتدار رکھنے والی جماعت کیلئے مناسب نہیں تھا ۔ یہاں پارٹی نے مہم کے دوران اپنی بے سمتی کے علاوہ اپنی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ رائے دہندوں پر ظاہر کردی ہے ۔ پارٹی نے دہلی میں اقتدار کے حصول کو اپنے وقار کا مسئلہ بنالیا ہے اور اس کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ پارٹی نے یہاں اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں عوام کے سامنے کوئی وعدے نہیں کئے ہیں اور نہ ہی کوئی منشور جاری کرنا ضروری سمجھا ہے ۔ پارٹی نے صرف ایک ویژن دستاویز پیش کرتے ہوئے ضابطہ کی تکمیل کی ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی کے پاس دہلی کے عوام سے کرنے کیلئے کوئی وعدہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ کوئی ترقیاتی پروگرام یا ایجنڈہ رکھتی ہے ۔ ویسے بھی اب اس کے ترقیاتی ایجنڈہ پر کوئی یقین نہیں کریگا کیونکہ اس نے لوک سبھا انتخابات سے قبل اور اقتدار ملنے کے بعد بھی یہی نعرہ دیا تھا لیکن اس کے برخلاف یہاں شدت پسندوں اور فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے جس سے ترقی کا ایجنڈہ کبھی بھی میل نہیں کھا سکتا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے یہاں انتخابی منشور جاری نہیں کیا ہے اور نہ ہی عوام سے کسی طرح کے وعدے کئے ہیں۔ جو ویژن دستاویز جاری کیا گیا ہے وہ بھی صرف عام آدمی پارٹی اور اس کے سربراہ اروند کجریوال کو نشانہ بنانے تک محدود رہا ۔ عام آدمی پارٹی اور کجریوال کے خلاف جو الزامات عائد کئے گئے تھے وہ انتہائی احمقانہ کہے جاسکتے ہیں۔ یہ کہا گیا کہ کجریوال کھانستے بہت ہیں اور مفلر پہنتے ہیں۔
بی جے پی نے یہاں اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کجریوال کے بچوں کو نشانہ بنایا اور ان کی ذات کے تعلق سے بھی تنقیدیں کی ہیں۔ پارٹی کی ساری کوشش یہی تھی کہ کسی طرح سے کجریوال کو بدنام کیا جائے اور انہیں رائے دہندوں میں رسوا کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے سے روکا جائے ۔ یہ منفی سیاست تھی جس میں بی جے پی مہارت رکھتی ہے ۔ اس کے پاس کسی طرح کا مثبت پہلو یا ایجنڈہ نہیں تھا جسے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ۔ دوسری جانب کجریوال جس طرح عوام سے وعدے کر رہے تھے اور انہیں تیقنات دے رہے تھے اس کو دیکھتے ہوئے پارٹی اور بھی بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئی ۔ ان پر مشتبہ کمپنیوں سے فنڈز حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ۔ تحقیقات کروانے خود کجریوال کے مطالبہ کو توجہ ہٹانے کی حکمت عملی قرار دیا گیا ۔ مرکز میں اقتدار رکھنے کے باوجود بی جے پی اگر ان الزامات کی تحقیقات نہیں کرواتی تو کیا خود وہ بھی اس کی حامی نہیں قرار دی جاسکتی ؟ ۔ یہاں صرف مخالف پارٹی کو بدنام کرنے کیلئے ایک ہتھکنڈہ اختیار کیا گیا اور اگر واقعی کجریوال نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور کالادھن کو حاصل کیا ہے تو انتخابی عمل سے قطع نظر ان کے خلاف تحقیقات کروانا اور حقائق کو منظر عام پر لانا مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ حکومت بی جے پی کی ہے ۔ بی جے پی محض تنقید پر اکتفا نہیں کرسکتی ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ انہوں نے ایک ریلی میں کہا کہ بے شرمی کی کوئی حد ہونی چاہئے ۔ وزیر اعظم کو یہ درس خود اپنی پارٹی کے قائدین کو بھی دینا چاہئے جو محض ووٹوں کے لالچ میں ہر طرح کی حدود کو پھلانگنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو وہ سروے بھی پسند نہیں آئے جن میں عام آدمی پارٹی کو اکثریت دکھائی گئی تھی ۔ ان سروے رپورٹس کو وزیر اعظم نے بازاری قرار دیدیا ۔ یہی نریندر مودی تھے جنہوں نے لوک سبھا انتخابات سے قبل اس طرح کے سروے کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے انتخابی نتائج سے قبل ہی واہ واہی بٹوری تھی ۔ اب حالات بدلنے کے اشارے محسوس کرتے ہوئے انہوں نے بھی اپنے عہدہ کا لحاظ کئے بغیر عام آدمی پارٹی کو نشانہ بنایا ہے ۔ بحیثیت مجموعی دہلی میں بی جے پی نے حسب روایت منفی سیاست کی ہے جس کی قیمت اسے چکانی پڑسکتی ہے ۔