دہلی پر صدرراج کے منڈلاتے بادل

بی جے پی کے نقطہ نظر سے ‘ مذکورہ حکومت کی برطرفی ان کے فیڈرلزم کے متعلق وعدے پر سوال کھڑا ہوجائے گا‘ وہ بھی ایسے وقت جب 2019کی انتخابی لڑائی ایک سال سے کم وقت ہے۔
نئی دہلی۔ دہلی ایک قریبی ریاست جہاں پر دو نظام ہیں ‘ ایک وہ جو مرکز کے تحت غیر منتخبہ ایل جی چلاتے ہیں اور دوسرا وہ جو منتخب نمائندوں کے چیف منسٹر چلاتے ہیں ۔

انتظام ناگزیر ہیں ‘ مثالی نہیں۔کیوں؟ مذکورہ شہر بیک وقت مرکزی حکومت کے زیراقتداربین الااقوامی ٹریٹریز کے تحت ہے کو بیرونی اشخاص کی آمد‘ سفارت کاروں اور سینکڑوں سفارتی عملے کے لوگوں کی سکیورٹی اور حفاظت کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔

اس کے لئے ہی پولیس مرکزی ہوم منسٹری کے تحت کام کرتی ہے او ریہ کام ایل جی کے دفتر سے انجام دئے جاتے ہیں۔مکمل ریاست میں نظم ونسق منتخبہ حکومت کے لئے خصوصی چارج ہے۔ دہلی میں مصروفیت کے ضوابط کچھ منفرد ہیں کیونکہ اس ایوان میں دو منتخب اراکین اور حکومتیں ہیں۔

ریاست بھر میں نظم ونسق کی ذمہ داری منتخب حکومت پر ہے۔ مگر مصروفیت کے اصول کچھ منفرد ہیں کیونکہ دہلی کے ایوانوں کے لئے دو اراکین اور حکومتیں منتخب ہوتی ہیں۔ یقیناًریاستی اسمبلی عوامی ضرورتو ں کی نمائندگی کرتی ہے مگر پارلیمنٹ سے اس کا وزن کم ہوتا ہے۔

فرق کے طور پر یہ بہت بڑا ہے جیسے سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ کے درمیان میں ہے۔ حالانکہ دونوں کچھ ہی فاصلے پر موجود ہیں مگر دستوری رکاوٹیں دونوں کو بڑی حدتک علیحدہ رکھتے ہیں۔

یہا ں تک جغرافیانی اور انتظامی نفاذ کے طور پر دہلی مرکز کے رابطہ نیشنل کیپٹل ریجن( این سی آر) کا حصہ ہے جس میں پڑوسی ریاست اترپردیش‘ راجستھان او رہریانہ کے کچھ حصہ بھی شامل ہیں۔ این سی آر پلاننگ بورڈ کا نفاذ این سی آر ایکٹ جو یونین منسٹری برائے اربن ڈیولپمنٹ کے تحت عمل میں آیاہے۔

یہ ایسے اقسام کے حالات ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ایل جی اور منتخب حکومت کے درمیان حدود اور اقتدار کی تقسیم کے لئے کار فرما ہیں۔

چیف منسٹر دہلی نصب چیف منسٹر ہیں جو تمام حالات کے ماسٹر نہیں ہوسکتے۔ حقیقی اقتدار راج نیواس کے ساتھ ہوتا ہے۔کام صرف ’’ بڑے بھائی‘‘ کی مرصی ہوتا ہے اور اس کے منتخب چھوٹے بھائی کے بولنے سے نہیں جو معقول او رمناسب ہوں۔

یاپھر نتائج منتخبہ مشنری کے بریک ڈاؤن کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔ جیسا کہ اب انل بیجل اور ارویندر کجریوال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ سابق سیول سروینٹ کے طور پر وہ رہائش کے حق سے محروم نہیں ہوتی جیسا نے مختلف زمینی حالات میں جو دیا او رلیا ہے۔

جس طرح ساتھی منتظم کی اہمیت کو انہوں نے ختم کردیا ہے وہ ناقابل اعتماد نظر آتی ہے۔اگر سمجھداری کے ساتھ اس مسلئے کو حل نہیں کیاگیاتو دہلی کا پوری طرح مرکز کے اقتدار میں اجائے گی۔ ویسی ریاست نہیں جیساعام آدمی پارٹی کی قیادت چاہا رہی ہے۔

پچھلے سالوں میں لیوٹنٹ گورنر وں او رچیف منسٹروں کے درمیان کام کے دوران بہتر ین رشتے دیکھنے کو ملے ہیں۔

مثال کے طور پر بی جے پی کے مقرر کردہ ایل جی وجئے کپور جن کی معیاد 1998سے 2004کے دوران تھی کو شیلاڈکشٹ کی کانگریس حکومت ملی اور انہوں نے ( اربن ڈیولپمنٹ منسری) کی ضرورت پر شہر بھر میں فلائی اوورس کی تعمیر کے لئے رقم کی اجرائی عمل میں لائی تھی۔

بیجل اور کجریوال کی بندش دوسرے دن دہلی میں مختلف ریاستوں کے چیف سکریٹریز کی میٹنگ میں موضوع بحث رہی۔اتفاق رائے یہ تھی کہ کجی واقعہ سے ناراض چیف سکریٹری انوشوپرکاش کے ساتھ امن قائم کرنے میں پوری طرح ناکام رہے۔

ایل جے نے چیف منسٹر سے معاملے کو رفع دفع کرنے کی پہل نہیں ہے ۔ او رعام آدمی پارٹی کے منسٹر س کے خلاف بیورکریسی کے عدم تعاون کو ان کی حمایت حاصل ہوگئی۔مذکورہ نصف ریاستی او رنصف مرکزی اقتدار کاسلسلہ نہیں ہے لہذا متوازی چل رہا ہے۔

وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے دوڑ رہے ہیں اور نقصان عآپ دور کو ہوسکتا ہے۔یہ کہناتو مشکل ہوگاکہ آیا وہ کجریوال کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اتفاق سے ہی دہلی پر مرکز کا اقتدار آجائے گا۔

مذکورہ عآپ لیڈرس کس اس کے بعد کچھ ہمدردی حاصل ہوگی اسی وجہہ سے وہ اسکیمات کو بنیاد بناکر عوام کے لئے لڑنے کی بات کررہے ہیں۔

بی جے پی کے نقطہ نظر سے ‘ مذکورہ حکومت کی برطرفی ان کے فیڈرلزم کے متعلق وعدے پر سوال کھڑا ہوجائے گا‘ وہ بھی ایسے وقت جب 2019کی انتخابی لڑائی ایک سال سے کم وقت ہے۔