دہلی میں دھرنا

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
دہلی میں دھرنا
آندھراپردیش کو متحد رکھنے کے مفاد پرستانہ تصور کو ضد ہیکہ ان کا علاقہ کسی بھی صورت منقسم نہ ہو اور وہ اپنے جاگیردارانہ نظام کو تلنگانہ پر مسلط و برقرار رکھیں۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد ایسی مؤثر زرعی اصلاحات نہ ہوجائیں جو تلنگانہ کے عوام کو خوشحال کردے۔ دہلی میں کانگریس کے قائدین نے خاص کر چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے دھرنا دے کر متحدہ آندھراپردیش کیلئے احتجاج، کانگریس کے یہ پہلے چیف منسٹر ہیں جو پارٹی کے فیصلہ کی کھلے عام خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اپنی آندھرائی ٹیم کو لیکر راشٹرپتی بھون کی چوکھٹ چوم کر خودغرضانہ اور مفاد پرستانہ سوچ کو علاقائی مفادات سے متصادم ہونے کے لئے چھوڑ دیا۔ گذشتہ سال جب صدرجمہوریہ نے آندھراپردیش ری آگنائزیشن بل ریاستی اسمبلی کو بھیج دیا تھا تو اس بل کو بے مروتی کے ساتھ واپس کردیا تھا۔ یہ سارا عمل ایک فضول مشق میں ثابت ہوا اور تلنگانہ کا مسئلہ جہاں پھنسا ہوا تھا وہی اٹکا رہ گیا۔ 15 ویں لوک سبھا کے آخری سرمائی سیشن کو آج دوسرے دن بھی ہنگامہ کے نذر کردیا گیا۔ سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے قائدین وہی ڈرامہ دہرا رہے ہیں جو برسوں سے انہوں نے اسٹیج کیا ہے۔ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی قومی قائدین اور اعلیٰ شخصیتوں سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ ان کی پارٹی کو صدی کا سب سے بھیانک فیصلہ کرنے سے باز رکھیں۔ ان کی نظر میں تلنگانہ کے قیام کا فیصلہ تباہ کن قدم ہے۔ یہ افسوسناک کیفیت ہے کہ ایک چیف مسٹر کو سڑک کی گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ جن قائدین کی توجہ آنے والے لوک سبھا انتخابات اور عوامی مسائل ان کی یکسوئی کی جانب مبذول ہونے کے بجائے، تصادم و اختلافات کے دائرے میں پھنسی ہوئی ہے۔ تلنگانہ کے خلاف اپنی لڑائی کو دہلی لے جانے والے یہ سیما آندھرا قائدین اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر علاقائی جذبات کو ضرب پہنچانے کے نتائج بھی بھیانک ہوسکتے ہیں۔ ایک شعلہ کو بجھانے کیلئے دوسری چنگاری کو بھڑکنے کا موقع دیا جانا سراسر احمقانہ بات ہوگی۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی باشعور سیاستدانوں کا فرض بنتا ہیکہ وہ کسی بھی قانونی بل پر غوروخوض کرکے اس پر سیر حاصل جامع مباحث کریں۔ ہر انسان، ہر شہری کو خوشحالی سے ہمکنار کرنا عوامی قائدین کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ کسی ایک علاقہ کے لوگوں کی خاطر دوسرے علاقہ کے عوام کو پسماندہ بنا کر رکھا نہیں جاسکتا۔

علحدہ ریاست تلنگانہ کے خواہاں سیاستدانوں کا احساس ہیکہ نئی ریاست کی تشکیل کیلئے گذشتہ 50 سال سے قانون سازی اور لوک سبھا سے صرف تیقنات، منصوبے اور معاہدوں کے شعبدے بازیاں ہی سنائی و دکھائی دے رہی ہیں۔ تلنگانہ کے اندر پائی جانے والی سنگینیاں، ہراسانیاں، پسماندگی کو دور کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی ہو یا کوئی تلنگانہ حامی پارٹی و رکن کو لمحہ آخر تک بھی امید ہیکہ مرکز تلنگانہ کے لئے اپنے فیصلہ پر دیانتدارانہ عمل کرے گا۔ جہاں تک آندھراپردیش ری آرگنائزیشن بل میں ترمیمات کا سوال ہے اس کے لئے ٹی آر ایس 13 ترمیمات کا مطالبہ کررہی ہے تو چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے اس بل کو تہہ و بالا کردینے کی قسم کھالی ہے۔ ایسے میں آندھراپردیش اور کانگریس دونوں ہی خرابیوں سے دوچار ہورہی ہیں۔ خیال رہی آنے والے انتخابات میں کانگریس کو اس ریاست سے کچھ نہیں ملنے والا ہے۔ اگر یہ خیال درست ہوجائے تو کانگریس کا موقف تباہ ہوگا۔ کسی بھی پارٹی کیلئے سیاسی تباہی افسونساک ہوتی ہے خاص کر ایک ایسے وقت جب وہ اپنے نوجوان لیڈر کو جلیل القدر ذمہ داریاں دینے جو منصوبہ بنا چکی ہے اسے اب اپنی ٹھیکداری نظام کو برخاست کرنا ہی ہوگا۔ کم و بیش اس کے قائدین ٹھیکدار ہی ہیں اس لئے وہ آندھراپردیش کو ٹھیکہ ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہئے۔ تلنگانہ کے عوام نے محرومی کے کئی برس گذار دیئے ہیں۔

اب مزید انہیں ان کے حقوق سے محروم کر رکھا جائے تو حالات کا کروٹ بدلنا یقینی ہے۔ تلنگانہ کے قائدین کو یہ سوچنے کا موقع نہ دیجئے کہ ان کے مقاصد کو وقف کیا جانے والا ہے۔ یہ ہر طرف شورشرابہ کرنے والے سیما آندھرا کے قادئین اصولاً کوئی کام نہیں کررہے ہیں۔ تلنگانہ کا قلعہ بنائے جانے سے پہلے ہی اسے مسمار کردیا جانے کا بندوبست کیا جارہا ہے تو قومی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو شدید ناپسند کیا جائے گا۔ کانگریس ہائی کمان اس وقت ہر معاملے کو بیان بازی اور کنفویزن کی حکمت اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ اسے واضح طور پر انتباہ دیتے ہوئے اعلان کرنا ہوگا کہ تلنگانہ یقینی ہے اس سے روگردانی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کو پرامن چلانے کیلئے ارکان کو اپنی شعوری ہونے کا ثبوت دینا ضروری ہے مگر افسوس ہیکہ یہ ارکان ایوان میں ایسا رویہ اختیار کررہی ہے جیسے کہ یہ ایوان اب ان کیلئے آخری منزل ہے اس کے بعد وہ یہاں واپس نہیں آنے والے ہیں۔