دارالحکومت دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح انتہائی سنگین حد تک بڑھتی جار ہی ہے ۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور عصمت ریزی و دست درازی کے واقعات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ 2012 ڈسمبر میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس نے سارے ملک میں ہنگامہ کھڑا کردیا تھا ۔ یہ لڑکی درندگی کا شکار ہوکر بالآخر اپنی زندگی بھی ہار بیٹھی تھی ۔ اس واقعہ پر پارلیمنٹ میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور پھر اس لڑکی کو ’ جسے نربھئے کا نام دیا گیا تھا ‘ سارے ملک میں آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور اسی کے نام پر ایک قانون بھی بنایا گیا ہے جسے نربھئے ایکٹ کا نام دیا گیا ہے ۔ عصمت ریزی اور دست درازی کرنے والوں کے خلاف اسی قانون کا استعمال کرتے ہوئے سزائیں دی جا رہی ہیں۔ اس واقعہ کی جو عدالتی کارروائی ہوئی تھی وہ بھی بہت تیز رفتار تھی اور اس کے خاطیوں کو سزائیں بھی سنادی گئیں۔
تاہم اس واقعہ پر جتنی سارے ملک کی اور میڈیا کی توجہ مبذول ہوئی تھی ایسی توجہ دوسرے پیش آنے والے واقعات پر نہیں دی جا رہی ہے ۔ دہلی میں شائد ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہو جب خواتین پر مظالم نہیں ہوتے اور خواتین کی عصمتوں کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جاتا ۔ ویسے تو سارے ملک میں اسطرح کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کیلئے قوانین کو سخت ترین بنایا جارہا ہے اس کے باوجود ان واقعات میںتشویشناک حد تک اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو چونکادینے والی ہے ۔ اس پر ملک بھر کے عوام کو فوری طور پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر دہلی میں جو واقعات پیش آ رہے ہیں ان سے دنیا بھر میں ملک کا نام متاثر ہو رہا ہے اورہندوستان کی امیج بڑی حد تک خراب ہو رہی ہے ۔ دہلی ‘ ملک کی راجدھانی ہے اور یہاں بیرونی سیاحوں کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات کا پیش آنا ملک کی نیک نامی کو متاثر کرنے کا موجب بن رہا ہے ۔ حکومتوں کی جانب سے ان واقعات پر قابو پانے کیلئے اپنے طور پر اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن یہ تمام تر اقدامات اب تک ناکافی ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ان واقعات پر قابو پانے کیلئے قانون سازی بھی کی گئی ہے جو موثر ثابت نہیں ہوسکی ہے ۔ خاطیوں کو سزائیں دلائی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود جرائم کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔
دہلی میں جب شیلا ڈکشت کی حکومت تھی تب بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور حکومت کو اس پر تنقیدوں کا نشانہ بننا پڑا ہے ۔ اب جبکہ وہاں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے اس وقت بھی ان واقعات کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب تازہ ترین واقعہ میں ڈنمارک کی ایک 51 سالہ خاتون کے ساتھ عصمت ریزی کا واقعہ پیش آیا اور خاطیوں نے اس خاتون کی رقم بھی لوٹ لی ۔ حالانکہ اس خاتون نے پولیس میں رسمی شکایت درج کروانے پر ہی اکتفا کیا اور قانونی کارروائی کو مزید آگے بڑھائے بغیر وہ اپنے ملک کو واپس ہوگئی ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وہ ہندوستان کا کیا تاثر لے کر گئی ہوگی ۔ یہ خاتون پہلے محبت کی یادگار تاج محل گئی اور پھر جب وہ دہلی میں گھومنے آئی اور شام کے وقت اپنی ہوٹل کا راستہ بھول کر اس تعلق سے معلومات حاصل کر رہی تھی کہ کچھ بدمعاشوں نے اس کی عصمت ریزی کی اور اس سے روپیہ وغیرہ بھی چھین لیا ۔ یہ واقعات نہ صرف خواتین کی عصمتوں کو تار تار کر رہے ہیں بلکہ اس سے ملک کی شبیہہ بھی متاثر ہو رہی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا کوئی طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ ان واقعات کو کم سے کم کیا جاسکے ۔ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس لعنت کے خاتمہ کیلئے صرف قانون سازی یا حکومتوں کی کوششیں ہی کافی نہیں ہوسکتیں۔ اس کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی سطح پر کوئی تحریک چلائی جائے اور عوام میں اس تعلق سے شعور بیدار کرتے ہوئے اس سنگین جرم کے تدارک کی کوشش کی جائے ۔ اس کام کیلئے سماجی اور غیر سرکاری تنظیموں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ سماج کے ہر گوشہ کو اس جرم کی روک تھام کیلئے اپنا رول ادا کرنا ہوگا ۔ جب تک سماجی سطح پر اس کے خلاف مہم نہیں چلائی جائے گی اس وقت تک اس کے بہتر نتائج سامنے آنے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔
سماج میں مہم چلاتے ہوئے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی ایک مخصوص طبقہ اس برائی کا ذمہ دار ہے بلکہ سماج کے ہر طبقہ میں یہ لعنت پائی جاتی ہے ۔ خود عوام میں ایسا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت عصمت ریزی یا خواتین کے ساتھ دست درازی کرنے والوں کا سماجی سطح پر مقاطعہ کیا جائے اور انہیں ہر لمحہ اس بات کا احساس دلایا جائے کہ انہوںنے انتہائی سنگین اور گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ سماجی سطح پر مہم چلائے بغیر اس لعنت کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا ۔ محض قانون اور عدالتی کارروائی اس جرم کو روکنے میں اب تک ناکام ہی ثابت ہوئی ہے ۔ دہلی میں اروند کجریوال کی حکومت کو چاہئے کہ وہ جس طرح سے کرپشن اور دیگر بدعنوانیوں کے خلاف بے تکان جدوجہد کر رہی ہے اسی طرح اسے کوئی جامع منصوبہ سازی کرتے ہوئے عصمت ریزی اور خواتین کے خلاف جرائم کے خلاف بھی ایک موثر مہم کا آغاز کرے اورسماج کو اس سے چھٹکارہ دلانے کی کوشش کرے ۔ یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ہندوستان کی روایات ‘ تہذیب اورا قدار کے مغائر جرم ہے اور اس سے دنیا بھر میں ہندوستان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس لعنت کے خاتمہ کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے ۔