گلشن میں کہیں فصل بہار آئی ہے شاید
پھر خار مغیلاں کی چبھن جاگ اٹھی ہے
دہلی میں تشکیل حکومت کی تیاری
دہلی میں اسمبلی کو معطل رکھنے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ وہاں واحد بڑی جماعت بی جے پی کو ریاست میں حکومت تشکیل دینے کیلئے مدعو کیا جائیگا ۔ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ کی جانب سے صدر جمہوریہ کو ایک رپورٹ روانہ کرتے ہوئے یہ اجازت طلب کی گئی ہے کہ واحد بڑی جماعت بی جے پی کو حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی جائے ۔ یہ تاثر بھی ملنے لگا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے ریاست میں حکومت تشکیل دینے کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں ۔ دہلی بی جے پی کے سربراہ نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی گورنر کی جانب سے تشکیل حکومت کی دعوت ملنے کے بعد اس پر غور کریگی ۔ بی جے پی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ نے بھی حکومت سازی میں اپنی پارٹی کی تیاری کا اشارہ دیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یہاں پہلے بھی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس میں وہ ناکام رہی تھی ۔ بی جے پی کو دہلی اسمبلی انتخابات میں درکار اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اور عام آدمی پارٹی نے اپنے پہلے اسمبلی انتخابات کا سامنا کرتے ہوئے 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ عام آدمی پارٹی کو حالانکہ اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن اس نے بعد میں کانگریس کی تائید کے ذریعہ حکومت تشکیل دی تھی ۔ یہ حکومت حالانکہ زیادہ عرصہ تک کام نہیں کرسکی اور کچھ مسائل پر اختلاف کی وجہ سے کجریوال نے دہلی چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفی پیش کرتے ہوئے کابینہ کے اجلاس میں قرار داد منظور کرکے اسمبلی کو تحلیل کرنے اور تازہ انتخابات کروانے کی سفارش کی تھی ۔ یہ سفارش گورنر دہلی کو روانہ کردی گئی تھی لیکن گورنر دہلی نجیب جنگ نے اس سفارش کو قبول نہیں کیا تھا اور انہوں نے ریاستی اسمبلی کو تعطل میں رکھا تھا ۔ اب گورنر کی جانب سے ایک رپورٹ صدر جمہوریہ کو روانہ کرتے ہوئے اسمبلی کو بحال کرنے اور واحد بڑی جماعت بی جے پی کو تشکیل حکومت کا موقع دینے کی اجازت طلب کی ہے ۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں دہلی کے سیاسی حالات کا تفصیلی تذکرہ بھی کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ واحد بڑی جماعت کو حکومت سازی کا موقع دیا جاسکتا ہے ۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی لیفٹننٹ گورنر دہلی کی درخواست پر کیا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
دہلی میں دو جماعتوں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو حکومت سازی کا موقع دینے کی شدید مخالفت کی ہے اور انہوںنے گورنر پرمبینہ طور پر غیر دستوری انداز میں کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ جس وقت انتخابات کے نتائج سامنے آئے تھے اس وقت بی جے پی وہاں حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہوئی تھی ۔ اب اسے موقع دینا اور اس کیلئے حالات کو بنیاد بنانا مناسب فیصلہ نہیں ہوسکتا ۔ ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ایوان اسمبلی میں بی جے پی کے ارکان کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے کیونکہ اس کے تین ارکان مستعفی ہوگئے ہیں جن میں مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن شامل ہیں ۔ ڈاکٹر ہرش وردھن پہلے دہلی میں وزارت اعلی کے امیدوار تھے لیکن اب وہ مرکزی وزیر صحت ہیں۔ دہلی میں اسمبلی کو معطل رکھے جانے کے بعد انہوں نے لوک سبھا کیلئے مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد مرکزی وزارت میں شامل ہوگئے ۔ دہلی میں بی جے پی کو حکومت سازی کیلئے درکار تعداد تک پہونچنے کیلئے مزید پانچ ارکان کی ضرورت ہوگی اور یہ تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک دوسری جماعتوں کے ارکان کو انحراف کیلئے اکسایا نہ جائے ۔ اگر بی جے پی دوسری جماعتوں کے ارکان کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ جمہوری عمل کا مذاق ہوگا اور اسے اس کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی جانب سے یہی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ گورنر کی جانب سے بی جے پی کو ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے غیر جمہوری و غیر قانونی عمل کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے ۔
گورنر موصوف نے صدر جمہوریہ کو جو رپورٹ روانہ کی ہے اس میں وہاں کے حالات کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے ۔ انہیں اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کرنا چاہئے تھا کہ دہلی اسمبلی میں بی جے پی کی عددی اکثریت میں کمی واقع ہوئی ہے اور اسے کتنے ارکان کی کمی کا سامنا ہے ۔ اب جبکہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی دوبارہ اتحاد کرنے اور حکومت تشکیل دینے کے موقف میںنہیں ہیں اور بی جے پی کو درکار عددی اکثریت حاصل نہیں ہے ایسے میں بہتر راستہ یہی رہ جاتا کہ وہاں اسمبلی کو تحلیل کرکے دوبارہ انتخابات کروائے جاتے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت اور سینئر قائدین فوری انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کی رائے سے زیادہ جمہوری اور دستوری گنجائش کی اہمیت ہوتی ہے اور دہلی میں اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی طرح کی غیر دستوری کوشش کی حوصلہ افزائی کے بغیر قانون کی مطابقت والا کوئی فیصلہ کیا جانا چاہئے ۔