دہلی ‘ حکمرانی تعطل کا شکار

دہلی ‘ حکمرانی تعطل کا شکار
قومی دارالحکومت دہلی میں جس وقت سے عام آدمی پارٹی کی حکومت تشکیل پائی ہے اور بی جے پی کو کراری شکست ہوئی ہے اس وقت سے ہی وہاں حکمرانی میں نت نئی رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مرکز میں برسر اقتدار نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ دہلی کی اروند کجریوال حکومت کو کام کرنے کا موقع دینا نہیں چاہتی ۔ کجریوال مسلسل عوامی مسائل پر ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو ملک کی کسی بھی دوسری ریاست کے حکمرانوں نے نہیں کئے تھے ۔ ان کی جانب سے ہونے والے اقدامات دوسری جماعتوں کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان اقدامات کی اگر مناسب انداز میں تشہیر ہوتی ہے اور اس تعلق سے ملک کے عوام میں شعور بیدار کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں دوسری ریاستوں کے عوام بھی حکومتوں سے ایسی ہی توقع رکھ سکتے ہیں۔ دیگر اقدامات کی بہ نسبت کجریوال حکومت نے دہلی کے سرکاری اسکولس کی حالت میں جو تبدیلی لائی ہے اس نے خانگی تعلیمی اداروں کو ‘ جنہوں نے اسے تجارت کا روپ دیدیا تھا ‘ کہیں کا نہیں چھوڑا ہے ۔ ان اداروں کی جانب سے عوام سے من مانی انداز میں پیسے اینٹھے جا رہے تھے ۔ تعلیم پر توجہ سے زیادہ صرف مشقت پر توجہ دی جا رہی تھی ۔ اپنے انداز کے ٹائم ٹیبل بنائے جا رہے تھے اور صرف دکھاوے کے اختراعی اقدامات کے ذریعہ اولیائے طلبا سے پیسے اینٹھے جا رہے تھے ۔ کجریوال حکومت نے تین سال میں دہلی کے خانگی تعلیمی اداروں کی حالت ایسی کردی ہے کہ خانگی ادارے شرمندگی محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سرکاری خدمات کو عوام کی دہلیز پر پہونچانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ لائسنس کی اجرائی سے لے کر دوسرے کئی کام ‘ جن میں ہزاروں روپئے کا کرپشن عام بات تھی ‘ اب عوام کو ان کی دہلیز پر فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہی جمہوری حکمرانی کا بہترین ماڈل ہوسکتا ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حکومت کو کام کرنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا جا رہا ہے ۔ رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔
دہلی میں لیفٹننٹ گورنر کو خاطر خواہ اختیارات ہوتے ہیں۔ بی جے پی حکومت نے اپنی پسند کے گورنر کو نامزد کرتے ہوئے دہلی میں بالواسطہ حکمرانی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کجریوال حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی کسی بھی عوامی بہتری اور فلاح و بہبود کی اسکیم کو جلد منظوری دینے کی بجائے گورنر کی جانب سے ان اسکیمات میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ ایک واقعہ کو بنیاد بناکر اب بیوروکریسی کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ دہلی میں آئی اے ایس عہدیداران حکومت سے تعاون کرنے بلکہ حکومت کی ہدایات کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں اور وہ ایک طرح سے حکومت کا عملا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ ان عہدیداروں کو ایسا تاثر عام ہے کہ مرکزی حکومت پشت پناہی حاصل ہے اور وہی انہیں مزید احتجاج کیلئے شہ دے رہی ہے ۔ یہ ساری سیاسی حکمت عملی ہے جسے حکمرانی میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ ایک حکومت اگر واقعی عوام کیلئے اچھے اور سہولت بخش اقدامات کرتی ہے اور عوام نے ہی اسے پانچ سالہ معیاد کیلئے انتہائی بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کیا ہے تو پھر مرکزی حکومت کو اس میں رکاوٹ پیدا کرنے کی بجائے اس میں تعاون کرنا چاہئے ۔ اس کی بجائے رکاوٹیں پیدا کرنا اور حکومت کے کام کاج میں رخنہ اندازی کرنا انتہائی افسوسناک پہلو ہے ۔
دہلی کے لیفٹننٹ گورنر بھی اس معاملہ میں ایسا لگتا ہے کہ ایک فریق بنے ہوئے ہیں۔ ریاست کے چیف منسٹر اور کچھ وزرا ان سے ملاقات کیلئے تین دن سے کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کے دفتر میں سٹ ان احتجاج کر رہے ہیں لیکن گورنر کے پاس ایک ریاست کے عوام کے ووٹوں کے ذریعہ منتخبہ چیف منسٹر سے ملاقات کیلئے وقت نہیں ہے پھر وہ کس سے ملاقات کرنا پسند کرینگے ؟ ۔ اس سارے معاملہ میں سب سے زیادہ نقصان اگر کسی کا ہو رہا ہے تو وہ دہلی کے عوام کا ہے ۔ کئی اہم کام رکے پڑے ہیں۔ عوام کو راشن تک نہیں مل پا رہا ہے اور عہدیدار اس کی بھی پرواہ کرنے تیار نہیں ہیں ۔ مرکزی حکومت کو اس معاملہ میں فوری مداخلت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس تعطل کو ختم کیا جاسکے اور حکمرانی میں جو تعطل پیدا ہوا ہے اس کو ختم کیا جائے اور دہلی کے عوام راحت کی سانس لے سکیں۔