ہندوستان کا دستور جب بڑے عہدے دیتا ہے،عزت دیتا ہے تو کچھ سیاست داں اور بیورو کریٹس بڑے عہدوں کے ساتھ منصوبہ بناکر کھیل جاتے ہیں۔ منتخب حکومت کو کمزور کرنے والے واقعہ کے بعد دہلی میں لیفٹننٹ گورنر اور چیف منسٹر کے درمیان کشیدگی و تنازعہ ایک نئے سیاسی محاذ کو دعوت دے چکا ہے جس کے بعد ہی دہلی کی حکمراں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے دہلی حکومت کے اختیارات کو سلب کرنے کی غرض سے جاری کردہ مرکزی وزارت داخلہ کے اعلامیہ کو غیردستوری قرار دینے کے لئے اسمبلی میں قرارداد پیش کی ہے۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال اور لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ کے درمیان جنگ میں شدت پیدا ہوئی ہے تو اس کی مخالفت میں عام آدمی پارٹی حکومت قرارداد منظور کرکے مرکز اور ریاستی حکومت کے درمیان شدید تصادم کی نوبت کو روکنے کے لئے صدرجمہوریہ سے مداخلت کرنے کی خواہش کی جاتی ہے تو یہ دستوری عمل کا ایک حصہ متصور ہوگا۔ دہلی حکومت کے اختیارات کو محدود کرنے کے لئے ہی مرکز نے اعلامیہ جاری کیا ہے۔ دہلی حکومت چاہتی ہے کہ دستور میں ترمیم کی جائے تاکہ ریاستی حکومت کو گورنروں اور لیفٹننٹ گورنروں کی سرزنش کا اختیار مل جائے، لیکن قانونی نکتہ نظر سے یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی حکومت دستوری عہدہ پر فائز کسی بھی شخص کی سرزنش کرسکے۔ دستور ِہند میں ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ گورنر کے عہدہ و اختیارات کو گھٹایا جائے۔ صدرجمہوریہ ہی لیفٹننٹ گورنر کا تقرر عمل میں لاتے ہیں اور وہ ہی انہیں برطرف کرسکتے ہیں۔ ایک جج جیسے عہدیدار کو برطرف کرنے کے لئے سرزنش یا مواخذہ کا قدم اٹھانا نہایت ہی مشکل عمل ہوتا ہے۔ اس طرح دہلی حکومت اور لیفٹننٹ گورنر کے درمیان اختیارات و اقتدار کی رسہ کشی نے مرکزی زیرانتظام علاقہ دہلی کو منفرد پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ افسوس اس بات کا کیا جارہا ہے کہ دہلی کی حکومت کے پاس کئی اہم محکموں پر اپنا حکم چلانے کا اختیار نہیں ہے۔ دہلی کے کئی سرکاری محکمے اور ایجنسیاں لیفٹننٹ گورنر کے تحت چلتے ہیں جو مرکز کو رپورٹس دینے کے پابند ہوتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت کو اس مسئلہ پر اعتراض ہے کہ ایک عوامی منتخب حکومت کے اختیارات سلب کرکے غیرمنتخب شخص کو تمام اختیارات دیئے گئے ہیں جو رائے دہندوں کے فیصلہ کی توہین ہے۔ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو بدترین شکست دے کر 70 رکنی دہلی اسمبلی میں 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اتنا طاقتور موقف رکھنے کے باوجود مرکز نے لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ دہلی حکومت کو بے بس و یکاوتنہا کرنے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال شروع کیا ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کا یہ اعلامیہ دستور کے مغائر مانا جارہا ہے کیونکہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے پر کاٹنے اور اس کو اس کے حق سے محروم کردینے کی کوشش کی ہر دستور پسند شہری مذمت کرے گا۔ مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ اس کے تحت آنے والے سرکاری ملازمین کی بدعنوانیوں کی انسداد رشوت ستانی بیورو کے ذریعہ تحقیقات نہ کروائی جائے، لیکن دہلی ہائیکورٹ نے انسداد رشوت ستانی ادارہ کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کرسکتی ہے۔ ہائیکورٹ کی اس رولنگ کے بعد مرکزی وزارت داخلہ کا موقف بھی نرم پڑ گیا۔ اب راجناتھ سنگھ ہر ایک کو دستوری ڈھانچہ میں رہ کر کام کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں جبکہ ان کی وزارت نے دستوری فریم ورک سے باہر آکر دہلی حکومت کے خلاف اعلامیہ جاری کیا تھا۔ مرکز چاہتا ہے کہ دہلی حکومت کا انسداد رشوت ستانی محکمہ اپنے آفیسرس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ مرکز کی بی جے پی زیرقیادت حکومت کے غیرآئینی اور غیرجمہوری اعلامیہ کو دہلی کورٹ نے روک کر عدلیہ اور دستور کے تقدس کو مزید مضبوط کردیا ہے۔ بی جے پی کے اشاروں پر کام کرنے والی دستوری اتھارٹی کا مواخذہ اگر درست سمت مناسب قدم ہے تو اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے لیکن ایسا ہرگز ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ اپنی من مانی کرنے والی سیاسی طاقتیں آئندہ کسی بھی حماقت سے باز آجائیں گی۔ دہلی کو 1991ء میں مرکزی زیرانتظام علاقہ بنانے کے لئے پارلیمنٹ میں چھٹے نویں دستوری ترمیم کے ذریعہ دہلی کے عوام کو اپنی پسند کی لیجسلیچرمنتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا لیکن اس دستوری ترمیم میں دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے اختیارات کا تنازعہ پیدا ہوا ہے۔ اس تنازعہ کا مقصد آئندہ اسمبلی کو ریاست کا درجہ دینے کی کوشش پر روک لگانا ہوسکتا ہے۔