دہلی انتخابات اور مسلم ووٹ

جذبات سے کھلواڑ کا پھر آگیا موسم
بہتر ہے خبردار رہیں سوداگروں سے
دہلی انتخابات اور مسلم ووٹ
سیاستداں چاہے نو وارد ہوں یا مشاق اپنے مطلب کی بات کرتے ہیں اور مستقبل کے منصوبوں کو تیار کرتے ہیں۔ دہلی اسمبلی انتخابات کی تیاری کرنے والے اس طرح کے نئے اور پرانے سیاستدانوں میں زبردست محاذ آرائی کے امکان کے درمیان یہ خبر افسوسناک ہے کہ عام آدمی پارٹی کی سابق بانی لیڈر شاذیہ علمی اور کرن بیدی اب بی جے پی میں شامل ہوچکی ہیں ۔ عام آدمی پارٹی میں رہ کر انہوں نے بی جے پی کے خلاف ہندوستانی مسلمانو ں کو فرقہ پرست بن جانے کا مشورہ دیا تھا ۔اب وہ خوددہلی اسمبلی انتخابات کیلئے اپنی سیاسی شناخت تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔عام آدمی پارٹی کو خالص عام آدمی کی خدمت کیلئے قائم کیا گیا تھا اس پارٹی میں ہندوستان کے دانشور اور فکر صحیح رکھنے افراد کی کثیر تعداد نے ہندوستانی سیاست کی نمود فکر کی صلاحیتوں میں نمایاں تبدیلی لائی تھی مگر ہر کامیابی کے بعد فاش غلطیاں یا کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی میں بھی ایسی ہی فاش غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سینئر دانشور نما افراد نے پارٹی کو چھوڑنے کا رجحان شروع کیا نتیجہ میں عام آدمی پارٹی کو کمزور بنانے کی کوشش کرنے والی دیگر پارٹیوں کو اپنے منصبوبوں میں کامیابی ملنے لگی اس منصوبہ سازی میں بی جے پی نے اول دستہ پارٹی کا رول ادا کیا اور اس کا ثبوت شاذیہ علمی کے رول سے ملتا ہے ۔ دہلی کے عوام کل تک عام آدمی پارٹی کو ان کی اپنی جماعت متصور کرتے تھے اور آج بھی یہ پارٹی دہلی کے عوام کے لئے بی جے پی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ اروند کجریوال کی زیر قیادت اس پارٹی نے دہلی میں حکومت کی اور عوام کی بہتر سے بہتر خدمت کرنے ،رشوت سے پاک معاشرہ و سرکاری نظام تشکیل دینے کے جذبہ کے ساتھ لوک پال بل کو متعارف کروایا لیکن دہلی اسمبلی میں وہی کچھ ہوا جو سیاسی طاقتوں نے عام آدمی کو کمزور کرنے کیلئے منصوبہ بنایا تھا اب یہی طاقت سارے ملک پر حکومت کرنے میں کامیاب ہوئی مگر دارالحکومت دہلی کی کرسی اس کے لئے سخت آزمائش کا سبب بن رہی ہے کیونکہ دہلی میں عام آدمی کی سوچ و فکر کچھ اور ہی ہے یہاں کے عوام فرقہ پرستوں کو ہر گز پسند نہیں کرتے۔ شاذیہ علمی نے بھی فرقہ پرستوں کے خلاف مورچہ بنایا تھا اور 2013 کے دہلی انتخابات اور 2104 کے لوک سبھا انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی ٹکٹ سے مقابلہ کیاتھا مگر دونوں مرتبہ وہ ناکام رہی تھیں۔ انہوں نے اردوند کجریوال کی پر زور حمایت میں سیکولرازم اور فرقہ پرستوں کے بارے میں رائے زنی کرتے ہوئے پارٹی کو ناراض کیا تھا ۔ اروند کجریوال نے شاذیہ علمی کے بیان سے پیدا ہونے والے تنازعہ سے پارٹی کو الگ تھلگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پارٹی اس طرح کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اور بی جے پی نے بھی سیکولرازم فرقہ پرستوں کی اصطلاح میں دیئے گئے شاذیہ علمی کے بیان پر وضاحت طلب کی تھی ۔ اب یہ سب باتیں ماضی بن چکے ہیں تو بی جے پی نے شاذیہ علمی کو سہارا دے کر عام آدمی پارٹی کو اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے ہوئے اسے دور کرنے کی کوشش شروع کی ہے ۔ کرن بیدی نے خود کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی لیکن اب نظریات کو تبدیل کرتے ہوئے بی جے پی میں شامل ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کو دہلی انتخابات میں کامیابی کے لئے سخت آزمائش سے گذرنا پڑرہا ہے اس لئے وہ دہلی کے رائے دہندوں کے ذہنوں کو پڑھنے سے قاصر ہے اگر بی جے پی کو دہلی کے سیکولر ووٹ نہیں ملے تو ناکامی یقینی ہے اسی لئے بی جے پی نے مسلم قائدین کو اپنی انتخابی مہم میں شامل کر کے دہلی کے مسلم عوام کو گمراہ کرنے کی سازش ایجنڈہ تیار کیا ہے اس کی اس سازش میں ملک کی دیگر مسلم جماعتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو شکست دینے کیلئے ضروری ہے کہ دہلی کے مسلم ووٹوں کو منقسم کیا جائے اور یہ مسلم ووٹ اس وقت منقسم ہوں گے جب بی جے پی کی جانب سے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا جائے گا یہ مسلم امیدوار بظاہر آزاد یا کسی اور پارٹی کے ٹکٹ سے مقابلہ کریں گے تا کہ مسلم ووٹ منقسم ہوجائیں اور عام آدمی پارٹی ناکام ہوجائے ۔ اس وقت دہلی حکومت کی نشست حکمراں پارٹی بی جے پی کیلئے وقار کا مسئلہ بنی ہوئی ہے اگر دہلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوتی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے سب سے بڑی شرمندگی کی بات ہوگی ۔ اس شرمندگی سے بچنے کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور مسلم ووٹوں کو ضائع کرتے ہوئے فرقہ پرستانہ سیاسی سازش میں کامیاب ہوسکتی ہے لہذا دہلی کے رائے دہندوں کو اس سازش کا شکار نہیں ہوناچا ہئے ۔ عام آدمی پارٹی اور اس کے حامی سیاسی گروپس کو موثر انتخابی مہم چلاتے ہوئے ٹھوس انتخابی ایجنڈہ و منشور مرتب کرنے کی ضرورت ہے تا کہ بی جے پی شاذیہ علمی یا ان کی طرح دیگر مسلم چہروں کوسامنے رکھ کر دہلی کے سیکولر و مسلم ووٹوں کو منقسم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔