دہلی انتخابات‘ دوسری ریاستوں کیلئے مثال

موسم خزاں کی یہ صرف ابتداء ہے اب
جتنے پتے سوکھے ہیں‘ ٹوٹ کر گریں گے سب
دہلی انتخابات‘ دوسری ریاستوں کیلئے مثال
بالآخر دارالحکومت دہلی میں اسمبلی انتخابات کی پولنگ ہوچکی ہے ۔ یہاں رائے دہندوں نے ریکارڈ تعداد میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے اور انہوں نے جمہوری عمل میں اپنے یقین کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پسند کی حکومت کو منتخب کرلیا ہے ۔ اب باضابطہ نتائج کا تو منگل کی صبح سے اعلان ہوگا تاہم جو انتخابی سروے اور ایگزٹ پولس سامنے آئے ہیں ان میں رائے دہندوں نے ایک بار پھر دہلی میں اروند کجریوال اور عام آدمی پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی شعور اور مسائل کے حل کیلئے خود اپنے رول کو بھی واضح کردیا ہے ۔ یہاں انتخابات سے قبل جس طرح کی انتخابی مہم چلائی گئی تھی وہ انتہائی شدید نوعیت کی رہی تھی جس میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف بدترین رویہ اختیار کرتے ہوئے اوچھے الزامات بھی عائد کئے تھے ۔ حد تو یہ ہوگئی تھی کے ملک کے وزیر اعظم نے بھی اپنے وقار اور رتبہ کا خیال کئے بغیر انتخابی مہم کے دوران دوسروں کو ایک عام لیڈر کی طرح نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ بے شرمی کی حد ہونی چاہئے ۔ دوسروں کیلئے حد کا تعین کرنے والے وزیر اعظم نے اپنے رتبہ کے حدود اور وقار کا خیال کرنا زیادہ ضروری نہیں سمجھا ۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ہونے والے اوپینین پول سروے کو بازاری سروے قرار دیدیا ۔ یہ ایسی زبان اور الفاظ تھے جو انتخابی مہم کے دوران ایک وزیر اعظم کو استعمال نہیں کرنے چاہئے تھے کیونکہ جب لوک سبھا انتخابات سے قبل اس طرح کے سروے ہو رہے تھے اس وقت نریندر مودی ان سروے رپورٹس کے حوالے پیش کرکے دوسرے رائے دہندوں پر بھی اثر انداز ہو رہے تھے ۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل مودی کو اس طرح کے سروے بازاری نظر نہیں آئے ۔ انہوں نے دہلی میں بی جے پی کو اقتدار دلانے کیلئے جس طرح اپنے عہدہ کے وقار اور رتبہ کا خیال کئے بغیر مہم میں حصہ لیا اور مخالفین پر تنقیدیں کیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف اقتدار حاصل کرنے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کیلئے انہیں وزارت عظمی کے جلیل القدر اور با وقار عہدہ کے تقاضوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہے ۔
اب جبکہ پولنگ ہوچکی ہے ایسے میں اب ایگزٹ پولس سامنے آئے ہیں جن میں یہ واضح طور پر صاف ہوچکا ہے کہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے دہلی کے عوام کا دل اور دہلی کا اقتدار دونوں ہی جیت لئے ہیں۔ کہا یہ جارہا تھا کہ جس طرح سے کجریوال نے گذشتہ مرتبہ موقع ملنے پر 49 دنوںمیں استعفی پیش کرتے ہوئے حکمرانی سے فرار حاصل کیا تھا اس بار عوام اس غلطی کو نہیں دہرائیں گے اور بی جے پی کے حق میں ووٹ دینگے ۔ ایسا بالکل نظر نہیں آتا ۔ اس کے برخلاف یہ واضح ہوگیا کہ دہلی کے عوام نے اپنے لئے مسائل پر توجہ دینے والی اور عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے کا جذبہ رکھنے والی پارٹی کو منتخب کیا ہے ۔ دہلی کے رائے دہندوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ فرقہ پرستوں ‘اقتدار کی ہوس رکھنے والوں اور جمہوریت کا مذاق بنادینے والوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے حقیقی جذبہ رکھنے والوں کو منتخب کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے ۔ جو ایگزٹ پولس پولنگ کے بعد سے سامنے آئے ہیں ان کی اکثریت نے عام آدمی پارٹی کو اقتدار دیا ہے اور ان ایگزٹ پولس کی افادیت اور ان کے درست ہونے کے امکانات کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ انہیں یکسر مسترد کردینا در اصل قبل از وقت شکست قبول کرنے کی دلیل ہی ہوتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ ایگزٹ پولس باضابطہ نتیجہ نہیں ہیں لیکن انہیں بالکلیہ غیر اہم اور غلط قرار دے کر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ماضی میں اسطرح کے ایگزٹ پولس اپنی اہمیت کو منواچکے ہیں۔
ایگزٹ پولس کے مطابق جس طرح سے دہلی کے رائے دہندوں عام آدمی پارٹی کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ سارے ملک کے رائے دہندوں کیلئے ایک مثال ہے ۔ ایگزٹ پولس کے نتائج سارے ملک کے عوام کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ دہلی کے عوام کی رائے نے سارے ملک کے عوام کے سامنے اپنے جس شعور کا مظاہرہ کیا ہے ویسا ہی مظاہرہ دوسروں کو بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔ آئندہ وقتوں میں بہار میں ‘ مغربی بنگال میں اور اتر پردیش میں ہونے والے انتخابات کیلئے دہلی کے انتخابات نے ایک مثال پیش کردی ہے ۔ ان ریاستوں کے رائے دہندوں کو بھی اسی سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے جس کا دہلی کے عوام نے مظاہرہ کیا ہے ۔ اسی سیاسی شعور کے مظاہرہ کے ذریعہ ملک کی ترقی اور فرقہ پرست طاقتوں کے عروج کو روکا جاسکتا ہے اور انہیں روکنا ملک کے رائے دہندوں کی بھی جمہوری ذمہ داری ہے ۔