وار ہم نے بھی پلٹ کر جب کیا
ظالموں کا ہم کو دھمکانا گیا
دہلی، سپریم کورٹ کا فیصلہ
دہلی میں حکمرانی کے تعلق سے سپریم کورٹ نے واضح ہدایات جاری کردی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک بڑی راحت نصیب ہوئی ہے اور اسے امید ہے کہ وہ کم از کم اب دہلی میں اپنے انداز میں حکمرانی کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوگی ۔ یہ تو وقت ہی بتائیگا کہ کجریوال حکومت کی امیدیں کس حد تک پورا ہونگی اور ریاست میں لفٹننٹ گورنر یا پھر عہدیداران کس حد تک سپریم کورٹ کے فیصلے کو مانیں گے اور ریاستی حکومت کی ہدایات کو کس حد تک قبول کیا جائیگا ۔ لیفٹننٹ گورنر کس انداز میں ریاستی کابینہ اور حکومت کے مشوروں کو منظوری سے نوازیں گے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی اشارے مثبت نظر نہیں آ رہے ہیں کیونکہ بی جے پی اور اس کے قائدین سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی اپنے انداز میں پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ شائد لیفٹننٹ گورنر بھی اسی روش کو اختیار کریں اور عہدیداران بھی ان کے اشاروں پر کام کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ دہلی میں جس وقت سے اروند کجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی اسی وقت سے ریاست میں حکمرانی میں بی جے پی اور مرکز کی این ڈی اے حکومت کی جانب سے رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہر ہتھکنڈہ اختیار کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو آزادی سے کام کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا حالانکہ دہلی کے عوام نے بے مثال تائید کے ذریعہ اس حکومت کو منتخب کیا تھا ۔ بی جے پی کو 70 رکنی اسمبلی میں محض تین نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور دہلی کے عوام نے اسے بری طرح مسترد کردیا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی زیر قیادت مرکزی حکومت دہلی کے عوام سے اسی بات کا بدلہ لے رہے ہیں۔ دہلی حکومت نے کئی ایسی تجاویز پیش کی ہیں جن کے ذریعہ دہلی کے عوام کو سہولیات فراہم جاسکتی ہیں۔ کجریوال حکومت کچھ اسکیمات پر اپنے انداز میں عمل آوری کروانے میں کامیاب ہوگئی تھی اور اس کے مثبت اثرات بھی دکھائی دے رہے تھے ۔ بی جے پی اس بات کو ہضم نہیں کرپائی تھی اور اس نے لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ حکمرانی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا ۔
کجریوال حکومت کی کئی اسکیمات اور تجاویز کو لیفٹننٹ گورنر نے نت نئے بہانے کرتے ہوئے روک دیا تھا ۔ کچھ تجاویز کو غیر ضروری اعتراضات کرتے ہوئے مسترد بھی کردیا گیا تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ لیفٹننٹ گورنر دہلی میں افسر شاہی کے ذریعہ ایک بالواسطہ نظام رائج کرتے ہوئے کام کرنا چاہتے تھے ۔ یہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ وہ مرکزی حکومت کے اشاروں پر ایسا کر رہے تھے ۔ تاہم کجریوال حکومت نے اس کو محسوس کرلیا اور کئی طریقوں سے صورتحال کو بہتر بنانے اور حکمرانی میں پیدا کئے جانے والے تعطل کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ لیفٹننٹ گورنر ایک ایک ہفتے تک چیف منسٹر یا ریاستی وزرا کو ملاقات کا وقت تک دینے تیار نہیں تھے اور عہدیداران الگ ہدایات تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے ۔ مرکزی حکومت لیفٹننٹ گورنر کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھا رہی تھی اور کجریوال حکومت کے ہر کام میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی تھیں۔ ہر اسکیم کو کسی نہ کسی بہانے کے ذریعہ روکا جا رہا تھا یا پھر مسترد کیا جا رہا تھا ۔ عہدیداران کو ایسا لگتا ہے کہ یہ ہدایات مخصوص گوشوں کی جانب سے دی جاچکی تھیں کہ وہ دہلی کے چیف منسٹر یا پھر وزرا کی ہدایات کو خاطر میں نہ لائیں اور صرف لیفٹننٹ گورنر کے اشاروں پر کام کریں۔ یہی وجہ رہی کہ وزرا اور چیف منسٹروں کو بھی افسر شاہی خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں تھی اور اس کا لازمی نتیجہ سرکاری کام کاج کے متاثر ہونے کی صورت میں سامنے آ رہا تھا ۔ بی جے پی شائد یہی چاہتی تھی ۔
تاہم جب کجریوال نے دہلی میں حکمرانی کے تعلق سے مسئلہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کردیا تو پھر سپریم کورٹ نے واضح رولنگ جاری کردی ۔ عدالت نے یہ واضح کردیا کہ لیفٹننٹ گورنر ریاستی کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے پابند ہیں۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ حکمرانی ایک منتخبہ حکومت کا کام ہے اور گورنر ہاوس سے اس میںمداخلتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ عدالت کے اس فیصلے کے باوجود بی جے پی اور اس کے قائدین اس فیصلے کے نت نئے پہلو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو در اصل خفت مٹانے کی کوشش ہے ۔ عدالت کے فیصلے کے بعد کم از کم اب بی جے پی اور مرکزی حکومت کو دہلی میں حکمرانی میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ خود لیفٹننٹ گورنر کو بھی اپنے دستوری منصب کا خیال کرتے ہوئے کسی دباؤ کے بغیر کام کرنا چاہئے ۔