دہشت گردی کیس میں گرفتار شخص ‘ ساتھی قیدیوں کی تعلیم میں مصروف

قیدیوں کو مختلف کورسیس میںداخلہ دلانے میں معاونت ۔ عدالت سے سزا میں رحم کی اپیل
ممبئی 2 اپریل ( سیاست ڈاٹ کام ) سال 2002 اور 2003 میں ہوئے بم دھماکوں کے کیس میں خاطی قرار دئے گئے 10 افراد کے وکلا نے خصوصی پوٹا عدالت سے خواہش کی کہ ان کے موکلین کے ساتھ رحم کا برتاؤ کیا جائے ۔ عدالت نے 29 مارچ کو 13 ملزمین کے منجملہ 10 کو خاطی قرار دیا تھا اور اب ان کی سزاوں کی مدت کے تعلق سے مباحث کی سماعت کر رہی ہے ۔ ایڈوکیٹ شیخ نے کہا کہ ڈاکٹر مزمل انصاری کو بھی خاطی قرار دیا گیا ہے جسے خوفزدہ اور دباؤ کا شکار کرتے ہوئے اقبالی بیان دینے پر مجبور کیا گیا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ انصاری جیل میں قیدیوں کو بلا لحاظ مذہب و ملت تعلیم حاصل کرنے میں مدد کر رہا ہے ۔ جیل میں زیادہ وقت تک انصاری سے واقفیت رکھنے والے دو افراد نے عدالت کو میں انصاری کی وکالت کی ۔ ایک شخص افروز خان اورنگ آباد میں 2006 میں ہتھیاروں کو منتقل کرنے کے مقدمہ کا سامنا کر رہا ہے جبکہ ادئے پاٹھک کرور میں چار افراد کے قتل کا ملزم ہے ۔ دونوں نے تھانے جیل میں انصاری سے قیدیوںکو تعلیم کے معاملہ میں ملنے والی مدد سے واقف کروایا ۔ افروز خان نے جج پی آر دیشمکھ سے کہا کہ تھانے جیل میں اس کی ملاقات انصاری سے 2008 میں ہوئی تھی ۔ وہ ٹی بی کا مریض تھا ۔ انصاری نے اس کی کافی نگہداشت کی ۔

 

وہ اکثر دوا وقت پر لینے کی تاکید کرتا تھا ۔ پاٹھک نے بتایا کہ انصاری اس کے خاندان سے آنے والے خطوط پڑھتا تھا اور ان کے جواب بھی تحریر کرتا تھا ۔ افروز نے بتایا کہ انصاری نے اسے انگریزی و اردو لکھنی و پڑھنی سکھائی ۔ پاٹھک اور افروز کے بموجب جیل میں ساتھی قیدیوںمیں انصاری کو معزز مقام حاصل ہے کیونکہ وہ ان کی جانب سے عدالتوں اور جیل حکام کو خطوط روانہ کرتا تھا ۔ انصاری نے قیدیوں کو اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی سنٹر کے ذریعہ مختلف کورسیس میں داخلہ لینے کی ترغیب دی ۔ اس نے کئی قیدیوں کو گاندھی جی کی زندگی پر امتحان تحریر کرنے پر راضی کیا ۔
بھارت ماتا کی جئے نعرہ کے خلاف پر فتویٰ
جماعت اسلامی کی تائید
نئی دہلی 2 اپریل (سیاست ڈاٹ نیوز) جماعت اسلامی ہند نے آج بھارت ماتا کی جئے نعرہ کے خلاف دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ کو حق بجانب قرار دیا ہے اور یہ ادعا کیا ہے کہ ایک جذباتی نعرہ کو حب الوطنی سے جوڑنے کی کوشش ’’فاش غلطی‘‘ ثابت ہوگی۔ امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمری نے فتویٰ کو صحیح وقت پر صحیح فیصلہ سے تعبیر کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت ماتا کی جئے کہنا مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ تاہم بھارت کی جئے کہنا ہر ایک کیلئے منظور ہے اور اس نعرہ پر کوئی تنازعہ بھی نہیں ہے لیکن بھارت ماتا کی جئے کہنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ مسلمانوں کے مذہب کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ دارالعلوم دیوبند نے کل ہی یہ فتوی جاری کیا تھا ۔