دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کا ہتھیار نہ بنائیں، افغان امن مساعی جاری

پاکستان کے ساتھ تعلقات فی الحال کشیدہ، افغانستان کی تعمیر نو میں ہندوستان کے رول کی ستائش، سی ای او عبداللہ کی تقریر

نئی دہلی۔29 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کو مختلف دہشت گرد گروپوں کو اس کی تائید و حمایت کے لیے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے افغانستان نے آج کہا کہ اب بنیادی فیصلے کرنے کا وقت آچکا ہے کہ کوئی بھی ملک دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی کے اعلی کار کے طور پر استعمال نہ کرے۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ان کے ملک کو پاکستان کے ساتھ روابط میں سخت چیلنج درپیش ہے اور یہ کہ اس ملک میں قائم دہشت گردانہ نیٹورکس بدستور افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ وہ انڈین کونسل فار ورلڈ افیئرس میں مخاطب تھے۔ انہوں نے کہا کہ تاریکی اور بدی کی قوتیں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن ساتھ ہی وہ رکاوٹیں کھڑی کرسکتے ہیں، وہ سردرد بن سکتے ہیں۔ یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں۔ عبداللہ نے کہا کہ ہمیشہ کے لیے ایک فیصلہ کرلینا ضروری ہے کہ دہشت گردی کو دنیا کے کسی بھی حصہ میں خارجہ پالیسی کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ اہم فیصلہ اس خطہ اور اس سے کہیں آگے بھی لاگو کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے ادعا کیا کہ عالمی برادری کو اس عزم و حوصلے کا اظہار کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ دہشت گردی پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ امن مساعی کے تعلق سے عبداللہ نے کہا کہ حکومت افغانستان نے بات چیت اور مذاکرات کے لیے اپنے دروازے کبھی بند نہیں کیے اور وہ ملک میں دیرپا عمل قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس موقع پر معتمد خارجہ ایس جئے شنکر نے افغانستان کے ساتھ ہندوستان کی مشغولیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ نئی دہلی اس ملک کے تئیں اپنے عہد پر بدستور کاربند ہے۔ افغان سی ای او نے افغانستان کی تعمیر نو میں ہندوستان کے رول کی ستائش کی اور کہا کہ یہ اعانت ان کے ملک میں لاکھوں افراد کی زندگیوں میں نمایاں فرق پیدا کررہی ہے۔ انہوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ ہندوستان کی جانب سے 116 نئے ترقیاتی پراجیکٹس پر عمل آوری کی جائے گی اور انہوں نے خصوصیت سے وزیراعظم نریندر مودی کا حوالہ دیا جنہوں نے ان کے ملک کی مدد میں جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس خطہ کو درپیش اصل خطرہ دہشت گردی کو قرار دیتے ہوئے عبداللہ نے کہا کہ دہشت گرد گروپوں کی تخصیص یا زمرہ بندی نہیں کی جاسکتی اور نہ انہیں اچھے یا خراب دہشت گرد کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حقیقت سے منہ موڑنا صورتحال کو مزید پیچیدہ کردینے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے سفارتی تعلقات اور روابط پر روشنی ڈالتے ہوئے افغان چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے کہا کہ ان کا ملک اپنی خارجہ پالیسی پر کسی بھی دیگر ملک کو اثرانداز ہونے نہیں دیگا۔ کسی بھی ملک کو ہمارے باہمی رشتے پر ویٹو کا حق حاصل نہیں۔ اگر ہندوستان، افغانستان آئے اور کہے کہ ہم آپ کے ساتھ تعاون کررہے ہیں لیکن برائے مہربانی پاکستان کے ساتھ دوستی نہ رکھیں، تب ہمارا جواب وہی ہوگا۔ یعنی کوئی بھی دو ملکوں کے باہمی تعلقات پر تیسرا ملک اثرانداز نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ امریکہ یا ایران کے معاملہ میں بھی افغانستان کا موقف یہی رہے گا۔ عبداللہ نے افغانستان کے لیے ٹرمپ نظم و نسق کے معلنہ پالیسی اعلانات کا خیر مقدم کیا ۔