دہشت گردی الرٹ

ایک ضرب اور بھی اے زندگی تیشہ بدست
سانس لینے کی ست اب بھی مری جان میں ہے
دہشت گردی الرٹ
عالمی سطح پر دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے مغربی طاقتیں اپنی پالیسیوں کو پہلے سے زیادہ مؤثر بنانے کی فکر کررہی ہیں جبکہ دہشت گردی کا ڈرامہ انہی ملکوں کی متعصبانہ پالیسیوں کی ایجاد ہے۔ اس ہفتہ کناڈا کی پارلیمنٹ پر حملہ، ایک کار سے راہرو کو کچل دینے کی کارروائی اور ایک شخص کو گولی مار دینے کے واقعہ کے بعد کناڈا نے چوکسی اختیار کرلی ہے۔ آسٹریلیا نے ایک شخص کو ان الزامات کے تحت گرفتار کرلیا ہے کہ وہ عراق و شام کی تنظیم دولت اسلامیہ سے تعلق رکھتا ہے اور آسٹریلیا میں حملے کرنے کی قسم کھائی ہے۔ عالمی سطح پر داعش اور اس کی سرگرمیوں کی جس طرح سے تشہیر اور ویڈیو کے ذریعہ تصاویر پھیلائی جارہی ہیں وہ سراسر ایک مذہب کے ماننے والوں کو ساری اقوام کی نظروں میں گناہ گار اور انسانیت کے خاطی ثابت کرنے کی ناپاک کوشش ہے۔ اب ہندوستان میں بھی ایر انڈیا کے طیاروں کو بم دھماکوں سے اُڑا دینے کی دھمکیوں کی خبروں کے ذریعہ خوف پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ عالمی سطح پر اسلام دشمن طاقتیں جو سازش کرتی ہیں اِس کا تسلسل ہندوستان تک جاری رہتا ہے۔ یہاں کی حکومت بھی دہشت گردی کے نام پر اپنی ایک الگ سوچ و پالیسی رکھتی ہے۔ ہندوستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد سب سے زیادہ مسلم طبقہ ہی متاثر ہوا ہے۔ اس طبقہ کو ہر محاذ پر کمزور کرنے کے لئے دہشت گردی کے خوف یا ہوّا کو اتنی شدت سے پھیلایا جارہا ہے کہ دیگر اقوام مسلمانوں سے دور ہوجائیں اور مسلمانوں کو یکا و تنہا کردیں۔ کناڈا میں پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والا شخص کناڈا کا ہی شہری تھا اور اس کا داعش سے تعلق نہ ہونے کی وضاحت کے باوجود اسے دولت اسلامیہ سے وابستہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ بھی افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ اس نے حملہ سے قبل شام جانے کے لئے پاسپورٹ کے لئے درخواست دی تھی۔ بے گھر کناڈا کے اِس نوجوان کو سرکاری آشرم میں جگہ مل گئی تھی۔ وہ بے گھر کناڈائی شہریوں کے لئے بنائے گئے شلٹرس میں مقیم تھا۔ حکومت کناڈا نے واضح طور پر کہا ہے کہ حملہ آور کے اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے کے شواہد نہیں ملے ہیں مگر مغربی میڈیا اسے دولت اسلامیہ کا آدمی قرار دینے کے لئے مختلف ثبوت اور من گھڑت کہانیاں تیار کررہا ہے۔ شام اور عراق میں لڑرہے داعش کے مجاہدین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کی تعداد کو اچھال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دہشت گردی سے مسلم نوجوانوں کا تعلق ہے۔ حال ہی میں حیدرآباد کے دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن پر الزام لگایا گیا ہے کہ یہ دونوں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی تربیت حاصل کرنے کے لئے افغانستان جانے کی کوشش کررہے تھے۔ پولیس کو ان دونوں نوجوانوں کے منصوبوں کا علم ہوا ہے تو وہ اس کے پیچھے موجود ہاتھ کو بے نقاب کرسکتی ہے مگر ایسا نہیں کیا جاتا۔ کیوں کہ یہ ایک سازش کا حصہ ہے۔ دہشت گردی کی بنیادوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لئے مؤثر اقدامات کرنے کے بجائے نظم و نسق کا بڑا حصہ من گھڑت واقعات کو ہوا دینے میں اپنی توانائی صرف کرتا ہے یا ایسے حالات کا تعاقب کرتا ہے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دولت اسلامیہ کے وجود میں آنے کی اصل وجہ انصاف، وقار اور حکمرانی کا فقدان بتائی جارہی ہے۔ عالمی برادری کا سردار امریکہ اپنی من مانی کارروئیوں سے دہشت گرد گروپس کو مزید مشتعل کررہا ہے۔ امریکہ دنیا بھر کے تمام ملکوں میں حکمراں سطح پر ہونے والی ناانصافیوں، ظلم، زیادتیوں اور قتل عام، عصمت ریزی، ناانصافیوں پر چشم پوشی اختیار کرتا ہے جب اس ناانصافی، حق تلفی اور حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اُٹھائی جاتی ہے یا گروپ تشکیل پاکر میدان میں آتے ہیں تو سزا کا انتخاب کرنے کے لئے مداخلت کرتا ہے۔ جب مسلم ملکوں میں ہونے والی ظلم و زیادتیوں پر بے بس اور لاچار انسانوں کی آہیں اور سسکیاں بلند ہوتی ہیں تو ان کی کوئی فریاد نہیں سنی جاتی۔ ہزاروں لاکھوں بے قصور انسانوں کی زندگیوں کی قدر نہ کرنے والے حکمراں اس ظلم و زیادتی، ناانصافی اور حق تلفیوں کی کھیتی سے پیدا ہونے والی طاقت کو دہشت گردی کا نام دے کر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کی کوشش ہی ساری دنیا کے مستقل امن کے لئے سنگین خطرہ بن رہی ہے۔ جب تک بڑی طاقتیں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوششوں کو ترک نہیں کریں گے انھیں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں کامیابی نہیں ملے گی۔
دریائے کرشنا کے پانی کا مسئلہ
تلنگانہ اور آندھراپردیش کے درمیان دریائے کرشنا کے پانی کے استعمال پر تنازعہ غیر ضروری ہے۔ دریائے کرشنا مینجمنٹ بورڈ کو اس تنازعہ کی یکسوئی کے لئے فوری حرکت میں آنا چاہئے۔ تلنگانہ کے قیام سے قبل ہی یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس نئی ریاست کو پڑوسی ریاست سے مختلف عنوانات کے ذریعہ پریشان کیا جائے گا۔ دھیرے دھیرے مسائل پیدا کردیئے جارہے ہیں۔ آندھراپردیش حکومت نے تلنگانہ حکومت پر الزام عائد کیاکہ وہ سری سیلم لفٹ پاور ہاؤز پر برقی پیدا کرنے کے لئے پانی حاصل کررہی ہے جو کرشنا ریور مینجمنٹ بورڈ کے احکام کی خلاف ورزی ہے جبکہ آندھراپردیش حکومت کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ سری سیلم لفٹ پاور ہاؤز سے پیدا کی جانے والی برقی کھڑی فصلوں کو بچانے کے لئے ہے۔ ریاست تلنگانہ میں یہ کھڑی فصلیں برقی سربراہی کی محتاج ہیں۔ جیسا کہ تلنگانہ کے انجینئر اِن چیف (آبپاشی) سی مرلیدھر نے کہاکہ برقی پیدا کرنے تلنگانہ حکومت نے کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے تو حکومت آندھراپردیش کو تلنگانہ عوام کے مفادات کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہئے۔ دیگر متعدد مسائل کی طرح بلاشبہ برقی کا بحران بھی تلنگانہ کی حکومت کو ورثے میں ملا ہے اور بظاہر اس کی جاب سے اقتدار سنبھالتے ہی اس مسئلے کے حل کیلئے اقدامات کا آغاز بھی ہوگیا تھا۔ گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے دونوں ریاستوں کے مسائل کا اعتراف کیا ہے تو انھیں اِن مسائل کی یکسوئی کے لئے مذاکرات کا اہتمام کرنا چاہئے۔ مگر چیف منسٹر آندھراپردیش چندرابابو نائیڈو نے سری سیلم پر برقی پیداوار کو روکنے کے لئے کرشنا ٹریبونل کو مکتوب لکھ کر حکومت تلنگانہ کو برقی پیداوار سے باز رکھنے کی درخواست کی ہے جبکہ انھیں اس الزام کا سامنا ہے کہ وہ کرشنا پٹنم اور مدور سیلورو سے پیدا ہونے والی برقی کا 54 فیصد تلنگانہ کو سربراہ کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ اگر وہ تلنگانہ کی برقی کا حصہ ادا کرنے سے کوتاہی کرتے ہیں تو برقی بحران پیدا ہوجائے گا۔ دونوں ہی ریاستوں کی حکومتوں کو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تلگو عوام کی مشکلات میں کمی کے لئے فوری اقدامات کریں۔ ایک دوسرے کو اپنے مخالفین کی ناکامی کو ہی اپنی کامیابی سمجھ لینے کی خود فریبی عادت ترک کرنی چاہئے۔ حکومتوں پر عوام کا اعتبار ان کی اپنی اچھی کارکردگی ہی مستحکم ہوسکتا ہے۔