اہل ہمت نے ہر دور میں کوہِ کاٹے ہیں تقدیر کے
ہر طرف راستے بند ہیں، یہ بہانہ بدل دیجئے
دہشت گردوں کو پھانسی
پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں شدت کا مظاہرہ کرنے والی حکومت اور فوج نے ایک ہفتہ میں سینکڑوں مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس کے علاوہ دو دہشت گردوں کو پھانسی بھی دیدی ہے۔ 2008ء سے اب تک صرف ایک قیدی کو سزائے موت دی گئی تھی۔ یہ سزاء فوجی عدالت نے سنائی تھی جبکہ 2007ء سے اب تک زائد از 2000 مشتبہ دہشت گردوں کو بری کردیا گیا تھا۔ پشاور کے فوجی اسکول پر تحریک طالبان پاکستان کی بربریت انگیز کارروائی کے بعد عوام میں حکومت کے خلاف پائی جانے والی ناراضگی اور غم و غصہ کو سرد کرنے کی کوشش میں نواز شریف حکومت نے دہشت گردوں پر شکنجہ کسنے کا قدم اٹھایا ہے تو اسے آخر تک چین نہیں لینی چاہئے۔ حکومت نے سزائے موت پر پابندی کے اپنے فیصلہ کو بھی واپس لیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں پاکستان کا دوہرا رویہ بھی تنقید کا باعث بن چکا ہے۔ ہندوستان کے شہر ممبئی میں 26/11 کے حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں کو ضمانت پر رہا کرنے کے بعد دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ لشکرطیبہ کے خطرناک سربراہ ذکی الرحمن لکھوی کو ضمانت دینے والی عدالت اور حکومت کو یہ فیصلہ کرنے سے قبل انسانی حقوق اور دیگر ملکوں کے انسانوں کی اموات سے ہونے والی دلی تکالیف کا احساس ہونا ضرور تھا لیکن پشاور فوجی اسکول المیہ کے بعد حکومت کا احساس جاگا تو یہ دیرآید درست آید کے مطابق ایک درست فیصلہ ہے۔ حکومت پاکستان وہاں کی انسداد دہشت گردی عدالتوں اور فوج کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے۔ دہشت گردی کو ملکی یا علاقائی نکتہ نظر سے نہیں دیکھا جائے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے اب تک کئی مشتبہ دہشت گردوں کو ثبوت کی کمی کے باعث رہا کردیا ہے۔ عدالتوں کے سامنے پیش کردہ کئی کیسوں کو ان عدالتوں نے شواہد کی عدم موجودگی یا مشکوک ثبوت کی بنیاد پر خارج کردیا تھا۔ اس پر یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان کی عدالتوں کے ججس طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن ان ججس نے انصاف کے تقاضوں کو ہرگز ملحوظ نہیں رکھا۔ پاکستان میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ عوام الناس ہو یا قانون دانوں، عدلیہ مقننہ کے لوگوں کو آسانی سے دھمکی دے کر اپنا کام نکال لیتے ہیں۔ یہ ایک صدمہ خیز سچائی ہے کہ آج پاکستان پر زیادہ تر دہشت گردوں کا ہی غلبہ ہے۔ سرکاری عہدیداروں اور ان کے خاندان والوں یا گواہوں کو دھمکی دینے کی وجہ سے قانون ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتا اس لئے دہشت گردی کے کیسوں میں زیادہ تر دہشت گردوں کو رہائی ملتی ہے۔ یہ لوگ پولیس، متاثرین، استغاثہ، وکلائے صفائی اور ججس کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان کی دھمکیوں یا عملی کارروائیوں کے خوف سے ہی دہشت گردی کے کیسوں کی یکسوئی میں سست روی پیدا ہوئی ہے اور چند برسوں بعد انسداد دہشت گردی کی عدالتیں خطرناک سے خطرناک دہشت گرد کو ٹھوس ثبوت نہ ہونے کا عذر پیش کرکے رہا کردیتی ہیں۔ امریکہ بھی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لئے حکومت پاکستان کو امداد دینے کے باوجود دہشت گردوں کو سزاء دینے سے قاصر ہوتا ہے لیکن اب پاکستان کے ہر شہری کے اندر مخالف دہشت گردی جذبہ پیدا ہورہا ہے تو یہ حکومت عدلیہ، فوج کیلئے مثبت تبدیلی ہے۔ فوجی اسکول کے المیہ نے ساری دنیا کے انسانوں کو متحد کردیا ہے۔ یہ اتحاد ہی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے حکومتوں کو حوصلہ عطا کرتا ہے کہ وہ اب کوئی نرمی سے کام نہیں لے گی۔ پاکستان کے فوجی سربراہ نے مشتبہ دہشت گردوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے بڑے پیمانے پر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے اور انہوں نے سزائے موت پا کر جیلوںمیں محروس دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے حکمنامے پر بھی دستخط کرنے شروع کئے ہیں تو اس سے دہشت گردوں کو یہ پیام ضرور ملے گا کہ ان کی کارروائیوں کو اب نظرانداز نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں ایک دن سزاء کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب تک کسی بھی ملک میں حکومت سخت اقدامات نہیں کرے گی وہاں کا امن ہمیشہ خطرے میں رہے گا۔ پاکستان کے کل تک کے حالات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ حکومت پاکستان، فوج اور عدلیہ نے دہشت گردی سے نمٹنے میں نرم رویہ اختیار کیا تھا اور سزائے موت پر پابندی بھی عائد کردی گئی تھی۔ پشاور کے واقعہ نے وزیراعظم نواز شریف کو اپنے فیصلہ سے دستبردار ہونے کی ترغیب دی جس کے بعد ہی انہوں نے محسوس کیا کہ اب کارروائی کرنے کا وقت آیا ہے کیونکہ نہ صرف سارا ملک پاکستان بلکہ ساری دنیا متحد ہوچکی ہے۔ لہٰذا وزیراعظم نواز شریف اور فوج کو پاکستان کی جیلوں میں محروس 8500 ان قیدیوں کو سزائے موت دینے پر عمل کرنا ہے جنہیں عدالتوں نے سزائے موت سنائی ہے اور ان تمام کی رحم کی اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں اور فوجی جرنلوں کو اپنی نرم پالیسیاں ختم کرکے قانون، عدلیہ، پولیس کو دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مضبوط سرپرستی کرنی ہوگی ورنہ یہ دہشت گرد ہر گھر کے آنگن میں موت کا ننگا ناچ کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔
مالیاتی اداروں کی دھاندلیاں
ٹیکس کی چوری اور کالے دھن کے معاملے ہندوستان میں مالیاتی اداروں کے لئے ایک آسان تجارت بن گئے ہیں خاص کر شیرمارکٹ کا اسی غرض کے لئے استعمال کیا جارہا ہے تو یہ ملک کے مالیاتی امور پر راست یا بالواسطہ ڈاکہ ہے۔ سیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا نے اسی طرح کی مالیاتی دھاندلیوں کا پتہ چلانے کیلئے حالیہ دنوں میں سخت اقدامات کئے ہیں۔ شیر مارکٹ سے تعلق رکھنے والی انفرادی اور کمپنیوں کے بشمول 260 اداروں پر پابندی عائد کی ہے۔ ان کے تعلق سے شبہ ہیکہ یہ ادارے شیر مارکٹ کے پلیٹ فارم کو ٹیکس چوری یا کالے دھن کو پوشیدہ رکھنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ سیبی نے اب نئے اختیارات بھی حاصل کرکے ٹیکس نادہندگان یا ٹیکس کی چوری کرنے والوں کو 6 ماہ کی جیل کی سزاء دینے کا پہلا قدم اٹھایا ہے لیکن مالیاتی اداروں سے وابستہ طاقتور ہاتھوں یا گروپس نے سیبی کی اس طرح کی آزادی پر سوال اٹھا کر اس کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ رقومات کی عدم ادائیگی کے کیس میں خاطی کی گرفتاری کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اس پر اعتراض ہورہا ہے کیونکہ سیبی کوئی مناسب قانونی اتھاریٹی نہیں ہے جو مالیاتی بے قاعدگیوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرسکے۔ اس کی جگہ اگر مالیاتی دھاندلیوں کے کیسوں سے نمٹنے کیلئے ایک مناسب عدالتی ادارہ تشکیل دیا جائے تو وہ انکم ٹیکس قانون کے تحت کارروائی کرسکتا ہے۔ بعض اوقات ٹیکس حکام بھی سپریم کورٹ کے سامنے گرفتاری کے طریقہ کار پر جوابدہ ہوتے ہیں اور انہیں چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد خاطیوں کو عدالت سے راحت ملتی ہے پھر مالیاتی دھاندلیوں کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔ لہٰذا انکم ٹیکس ایکٹ یا سیکوریٹیز قانون کے تحت عدلیہ کو مضبوط بنایا جائے کیونکہ سیبی کو پولیس مین کا کام کرنا نہیں ہے۔