دہشت گردوں سے نرم رویہ ؟

اپنے اور پرائے میں فرق یہ نہیںکرتی
آگ جب بھڑکتی ہے سب کے سب جھلستے ہیں
دہشت گردوں سے نرم رویہ ؟
نریندر مودی دور حکومت میں ملک کے عوام کو اچھے دنوں کی امید تھی ۔ ایک سال گذرنے کے بعد بھی ملک کے عوام کیلئے اچھے دن محض ایک خواب ہی ثابت ہوئے ہیںلیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دہشت پھیلانے والوں اور ملک کے قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کیلئے اچھے دن ضرور آگئے ہیں۔ مالیگاوںمیں 2008 میں ہوئے بم دھماکوں کے کیس میں خود این آئی اے کی پیروی کرنے والی سینئر وکیل روہنی سالیان نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ مرکز میں مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد این آئی اے کے اعلی عہدیداروں نے ان پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ مالیگاوں دھماکوں کے ملزمین کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کریں۔ روہنی سالیان نے یہ ادعا کیا ہے کہ گذشتہ ایک سال سے ان پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا تھا تاہم انہوںنے سچائی کاساتھ دینا ضروری سمجھا ہے اور ان کا ضمیر صاف ہے ۔ روہنی سالیان کے بموجب این آئی اے کے ایک عہدیدار نے ان سے دو مرتبہ رابطہ کرکے ملزمین کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرنے کو کہا تھا ۔ یہ عہدیدار بھی اپنے اعلی عہدیداروں کے قاصد کا رول ادا کر رہا تھا ۔ حالانکہ سالیان نے اس عہدیدار کا نام ظاہر نہیںکیا ہے لیکن انہوںنے جو انکشاف کیا ہے وہ چونکا دینے والاہے۔جو تحقیقاتی ایجنسی ملزمین کوکیفر کردار تک پہونچانے کی ذمہ دار ہے اور جس کے تعلق سے ابھی تک عوام میںکوئی شکوک و شبہات پیدا نہیںہوئے تھے اگر وہ خود ملزمین کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرنا چاہے تو پھر اس ملک میں خاطیوں اور گناہ گاروں کو سزا کون دلائیگا ؟ ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جواس ملک کے ہر اس شہری کے ذہن میںپیدا ہوسکتا ہے جوقانون کی بالادستی چاہتا ہے ۔ مالیگاوںبم دھماکوںکو سات سال کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن ابھی تک تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے ملزمین کے خلاف چارچ شیٹ تک پیش نہیں کی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے ملزمین کو ضمانت مل گئی ہے ۔ وہ ملک میں دہشت پھیلانے کے الزامات کاسامناکرنے کے باوجود پوری آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیںاور ان کے آئندہ عزائم کے تعلق سے بھی کسی کو کوئی فکر لاحق نہیں ہے ۔ حالانکہ این آئی اے کی جانب سے خود اپنی وکیل کے ادعا کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ تردید اطمینان بخش ہرگز نہیںکہی جاسکتی ۔
نریندر مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مالیگاوں بم دھماکوںکامقدمہ ہی واحد مقدمہ نہیںہے جس میں ملزمین نے راحت محسوس کی ہے۔عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹرکیس کے ملزمین کوبھی ایک کے بعد دیگرے ضمانتیں ملتی گئیں اور تقریبا تمام ملزمین جیل سے باہر آگئے ہیں۔ مقدمات کاسامناکرنے والے بعض عہدیداروں کی خدمات کو گجرات حکومت نے بحال بھی کردیا ہے ۔یہ خودبھی ملزمین کو راحت پہونچانے کاعمل ہے ۔ دوسری طرف گجرات فسادات میں اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی کے رول کو واضح کرنے والے عہدیدار سنجیوبھٹ کو حکومت کے عتاب کا سامنا ہے۔ حقائق کو منظرعام پر لانے والے عہدیدار مسائل کاشکارہیں اورقانون کی دھجیاں اڑانے اور دہشت کا ننگا ناچ کرنیوالے عہدیدار راحت محسوس کر رہے ہیں۔ ایسے میں ملک میںقانون کی بالا دستی کے خواہاںعوام کے ذہنوںمیںکئی سوال اور اندیشے ابھرتے ہیں اور مرکزی حکومت کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے ۔ روہنی سالیان نے جو انکشاف کیا ہے این آئی اے اس کی تردید کرتے ہوئے بری الذمہ نہیںہوسکتی ۔ اس انکشاف کی خود تحقیقات کروائی چاہئے ۔ یہ پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ وہ کونسا عہدیدار ہے جس نے خصوصی پبلک پراسکیوٹر پر دباؤ ڈالنے کیا کوشش کی تھی اور اس نے اپنے کون سے اعلی عہدیداروں کی ایما پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔ محض تردید کردینے سے معاملہ ختم نہیں ہوجاتا کیونکہ یہ مقدمہ معمولی مقدمہ نہیں بلکہ ملک میںہوئے بم دھماکوںکامقدمہ ہے جس میں معصوم افراد ہلاک ہوئے تھے ۔
روہنی سالیان کے انکشاف سے صرف مالیگاوں بم دھماکوں کے مقدمہ کی تحقیقات پر ہی نہیں بلکہ ان تمام مقدمات کی تحقیقات پر سوال پیدا ہوگئے ہیںجن میںہندو دہشت گردوںکا رول سامنے آیا تھا ۔ خودمالیگاوںدھماکوںمیں بھی ابتداء میںمسلم نوجوانوں کو ماخوذ کردیا گیا تھا تاہم اس وقت کے مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرتے ہوئے ہندودہشت گردوں کا رول واضح کیا تھا ۔ اور بھی کئی مقدمات ہیں جن میںہندو دہشت گردوںکے رول کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ان سارے مقدمات کی تحقیقات کو غیر جانبدار بنانے کی ضرورت ہے اور این آئی اے سے ان عہدیداروں کو علیحدہ کیاجانا چاہئے جو ملزمین کے ساتھ نرم رویہ رکھنا چاہتے ہیں۔یہ ملک کی داخلی سلامتی کا انتہائی حساس مسئلہ ہے اور نریندر مودی حکومت کو اس میںخود اپنے غیر جانبدارہونے کا ثبوت بھی دینا ہوگا ۔